ایک عورت کو گھر سے باہر کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ؟
سعدیہ بی بی
ایک عورت کو ایک لڑکی کو گھر کے اندر بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور گھر سے باہر بھی۔ گھر کے اندر بھی بہت سی پابندیاں لگائی جاتی ہیں لیکن وہ کسی نہ کسی طرح ان کو سہہ کر گھر سے باہر جانے کی اجازت لیتی ہے۔ جب گھر سے باہر نکلے تو باہر کی دنیا میں پھرتے ہوئے درندے انہیں جینے نہیں دیتے۔ ان کی گندی سوچیں ، گندی نظریں ایک عورت کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔
عورت کہیں بھی محفوظ نہیں۔ اسی مہینے کی بات ہے۔ میں نے ری ٹریٹ پر جانے کے لیے بابا کی اجازت لینی تھی وہ مجھے نہیں مل رہی تھی۔ اس ری ٹریٹ پر ہمیں نتھیاگلی جانا تھا اور بھی ساتھی جا رہے تھے جن میں رپورٹرز ، بلاگرز اور صحافی شامل تھے۔ بڑی مشکلوں سے ضد کر کے اخر کار اجازت مل ہی گئی۔ ساڑھے اٹھ بجے ہمارے سفر کا اغاز ہوا پشاور صدر سے اور تقریبا دو بجے ہم وہاں پہنچ گئے۔ جب میں نے نتھیا گلی کے صحت افزا مقام دیکھے تو مجھے بہت خوشی محسوس ہو رہی تھی دل کو ایک سکون ملا وہاں جا کر۔ کھانا کھا کر تھوڑی دیر ارام کیا اور پھر ایوبیہ واکنگ ٹریک کی طرف روانہ ہوئے۔
یہ واکنگ ٹریک چار کلومیٹر پر مشتمل تھا۔ سردی بہت زیادہ تھی۔ پہاڑوں کی چوٹی پر برف دکھائی دے رہی تھی اور دھند بھی تھی۔ اس واکنگ ٹریک سے ٹھیک چار کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چائے کا ہوٹل تھا جہاں ہمیں پہنچنا تھا۔ ہم سب لوگوں نے اپنے سفر کا اغاز کر لیا تھا۔ کوئی بہت پیچھے تھے کوئی بہت اگے۔ اب میں اور میرے ساتھ ایک رپورٹر تھی ہم اکیلے چلے جا رہے تھے۔ اس واکنگ ٹریک پر خواتین کی تعداد مردوں سے بہت کم تھی۔ ہر کوئی اپنی فیملی یا شوہر کے ساتھ تھی۔ ہمارے دل میں خوف سا تھا کیونکہ ہم اکیلے جا رہے تھے۔ ایک خوف یہ تھا کہ کہیں سے کوئی جانور نہ آجائے اور ہم پر حملہ نہ کردے اور دوسرا خوف یہ تھا کہ ہم دو لڑکیاں اکیلی چلی جا رہی ہیں اور وہاں سے زیادہ لڑکے ہی گزر رہے تھے۔ اب سامنے کی جانب سے دو لڑکے آرہے تھے۔ میں اور میری ساتھی رپورٹر ہم باتوں میں مصروف تھے ۔ جب دونوں ساتھ میں گزرے تو دیکھ کر مسکرانے لگے اور ماشاءاللہ بول کر چل دیے۔ اب سامنے سے اتا ہوا ہر ادمی اور لڑکا ہمیں اوپر سے نیچے تک دیکھنے لگتا اور مسکرا کر چلا جاتا اور پھر پیچھے سے بار بار مڑ کر بھی دیکھتا۔
میرے خوف میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ہم نے اپنے قدم تیز کر دیے۔ چلتے گئے چلتے گئے کچھ سمجھ نہیں ارہی تھی کہ کتنا فاصلہ طے کر چکے ہیں اور کتنا باقی ہے۔ پیچھے سے ہمارے ساتھی ارہے تھے تب جا کر خوف دور ہوا چلو کوئی تو اپنا ملا اور پھر ہم انہیں کے ساتھ منزل کی طرف بڑھتے گئے۔ آگے جا کر راستہ بھی بھٹک گئے۔ بڑی مشکل سے اس ہوٹل تک پہنچے۔ یہ سفر خوشی خوشی طے کرنا تھا جو ڈر ڈر کے طے ہوا۔
اب اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک عورت یا لڑکی باہر نکلتے ہوئے کن مرحلوں سے گزرتی ہے۔ گھر والوں نے باہر جانے پر پابندی لگائی ہوتی ہے لیکن پھر بھی بہت سی عورتیں ہیں جب مجبوری ائے تو نکلنا پڑ ہی جاتا ہے۔ بہت سے لوگ یہی بولتے ہیں کہ اگر جانا ہے تو باپ ، بھائی یا شوہر کے ساتھ نکلو لیکن کبھی ایسی مجبوری بھی اتی ہے کہ گھر میں کوئی نہ ہو اور ایمرجنسی ہو تو مجبوری میں عورت کو نکلنا پڑ جاتا ہے۔ اج کل کے دور میں ایک عورت کے لیے گھومنے جانا بھی خطرہ ہے۔ ایک اکیلی عورت پارک نہیں جا سکتی۔ ایک اکیلی عورت موٹروے پر رات کے ٹائم نہیں نکل سکتی۔ اس کی بہت ساری مثالیں ماضی کے کچھ واقعات ہیں جن میں سے کچھ تو ایسے ہیں جن کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ گھر سے اکیلے باہر نکلنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے، جب بھی ہم نکلیں تو کوئی نہ کوئی گاڑی یا موٹر سائیکل پیچھے لگ جاتی ہے، کچھ نہ ہو تو ہارن مارتے ہیں۔
عورتوں کے بھی اپنے حقوق ہیں۔ ہم ایک ازاد مملکت میں رہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم خواتین گھر ہی میں رہیں۔ ہر کسی کا حق ہے باہر نکلنے کا۔ بات یہ ہے کہ ہم معاشرے کو بدلیں، صرف خواتین ہی خود کو نہ بدلیں بلکہ جو مرد کی سوچ ہے اسے بھی بدلیں۔
سعدیہ بی بی کمپیوٹر سائنس کی طالبہ ہیں اور مختلف سماجی و معاشی مسائل پر بلاک لگتی رہتی ہیں۔