بلاگزلائف سٹائل

وادی شمشال کی افروز نما   

 

سندس بہروز                     

انسٹا گرام پر سکرال کرتے ہوئے میری نظر بی بی سی کی 100 متاثر کن خواتین کی خبر پر ٹھہر گئی۔ بی بی سی ہر سال دنیا بھر سے 100 متاثر کن خواتین کا چناؤ کرتی ہے، جو مختلف میدانوں میں اپنا لوہا منوا چکی ہوتی ہے چاہے وہ کھیل کا میدان ہو یا ثقافت کی فروغ کے لیے کی گئی کوششیں۔ سائنس کی دنیا میں کوئی اہم کارنامہ سر انجام دینے والی خاتون ہو یا انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی کام ہو۔

اس سال بھی بی بی سی نے 2023 کی 100 بہادر اور باہمت خواتین کی لسٹ جاری کی۔ یہ خبر تو میرے لیے شاید کچھ زیادہ خاص نہ ہوتی مگر ان میں شامل ایک نام نے مجھے آگے بڑھنے نہ دیا۔ گلگت کی وادئ شمشال کی ایک بہادر خاتون افروز نما کا نام دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ تجسس مجھے پاک سر زمین کی اس با ہمت بیٹی کے بارے میں اور جاننے پر مجبور کر رہی تھی۔ میں بھی کھوج کے اس سفر پر روانہ ہوئی اور ان کے بارے میں جان کر میرا سر فخر سے بلند ہو گیا۔

وادئ شمشال 3100 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہاں  کے باسیوں کو ‘واکھی’ کہا جاتا ہے۔ 2003 میں اس وادی کی طرف ایک سڑک تعمیر ہوئی۔ بہت عرصے تک باقی دنیا سے کٹے رہنے کی وجہ سے یہاں لین دین کے ذریعے تجارت ہوتی تھی۔ان کا گزر بسر کھیتی باڑی اور جانور پالنے کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ موسم گرما میں ان کے مرد گاؤں میں رہ کر کھیتی باڑی کرتے ہیں اور خواتین اپنے ریوڑ چرانے کے لیے بلند ترین میدان کا رخ کرتی ہیں۔

افروز نما واکھی چرواہوں کی آخری چرواہا ہے جومشکل ترین راستوں پر اپنا ریوڑ لے کر سرسبز میدانوں کا رخ کرتی ہیں اور پانچ سے چھ مہینے گھر سے دور ان میدانوں میں گزارتی ہیں۔ ان میدانوں تک پہنچنے کا راستہ ایک دریا سے ہو کر گزرتا ہے جس پر لکڑی کی ایک پل بنی ہوئی ہے۔ اس مشکل راستے پر لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ ہر وقت رہتا ہے اور ان میدانوں میں مختلف پہاڑی جانوروں سے ان کو اپنے ریوڑ کا تحفظ بھی کرنا ہوتا ہے مگر یہ بہادر خواتین ہمت اور حوصلے سے ہر خطرے سے لڑنے کا ہنر جانتی ہیں۔ ان میدانوں میں اپنی رہائش کے دوران ان جانوروں کے دودھ سے دہی اور دوسری ڈیری اشیاء بناتی ہے جس میں سے کچھ وہ وہاں استعمال کرتی ہے اور کچھ واپس اپنے گاؤں لے کر آتی ہے جن کے بدلے وہ مختلف اشیاء خریدتی ہیں۔ یہی ان عورتوں کا ذریعہ معاش ہے جن کے ذریعے وہ اپنے بچوں کی شادی اور تعلیم کے خرچے اٹھاتی ہیں۔

افروز نما اس گاؤں کی پہلی خاتون تھی جنہوں نے جوتے پہنے تھے جو ان کو ان کے بھائی نے تحفے میں دیے تھے ورنہ بہت عرصے تک یہاں کے لوگ بغیر جوتوں کے رہتے تھے۔ واکھی چرواہوں کی یہ روایت ابھی ختم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ افروز نما اس پیڑھی کی آخری چرواہا ہے۔ بی بی سی نے ان کا نام دنیا کی 100متاثر کن خواتین میں شامل کر کے ان کی بہادری اور ہمت کو سلام پیش کیا ہے۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ ایسی خواتین بھی اب سامنے آرہی ہیں جن کو کبھی کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔ اس کی زندہ مثال وادی شمشال کی افروز نما ہیں۔

سندس بہروز انگریزی میں ماسٹرز کر رہی  ہیں اور اور سماجی مسائل پر بلاگرز بھی لکھتی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button