بلاگزلائف سٹائل

کیا لڑکی کا یہ حق نہیں کہ وہ اپنی مرضی کا ہمسفر پسند کرے؟

 

حدیبیہ افتخار

لڑکیوں کی شادیاں آخر ہو ہی جاتی ہے، ماں باپ کے سروں سے ان کا بوجھ اتر ہی جاتا ہے لیکن اگر شادی سے پہلے بیٹی کی مرضی دریافت کی جائے تو ان کی زندگی بھی سکون سے گزرے گی۔

شادی کے بعد سسرال والوں کو بہو تو شوہر کو بے تنخواہ نوکرانی مل جاتی ہے، جو دن رات ایک کرکے گھر سنبھالنے کے ساتھ یہ خیال بھی رکھتی ہے کہ سسرال والوں کو ان کی کوئی بات ناگوارہ نہ گزرے۔ اسلئے وہ چھپ چاپ گھر کے کاموں میں خود کو مصروف رکھتی ہے۔

اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی لڑکیوں کو پھر بھی بہت سی باتیں سننا پڑتی ہے۔ ماں باپ کے گھر رہیں تو لوگ کہتے ہیں بیٹیاں تو پراۓ گھر کی ہوتی ہیں، اور شادی کے بعد اگر کوئی غلطی سر زد ہو جائے تو اپنے گھر میں ماں باپ نے کچھ نہیں سکھایا، جیسے طعنے بھی سننے کو ملتے ہیں۔

اپنے گھر میں بیٹیاں ماں باپ کا خیال رکھے یا نہ رکھے لیکن شادی کے بعد زندگی خاوند, سسر, ساس کی خدمت اور اپنے بچوں کے لئے وقف کر دیتی ہے۔ لڑکی کی وجہ سے بہت سو کی زندگیاں سنور جاتی ہیں، لیکن وہ ان تمام کاموں میں خود کہیں گھم ہوجاتی ہے۔

وہ کون تھی؟ کیا خواہشات تھے اس کے, وہ کیا بننا چاہتی تھی، وہ اپنے لئے کیسا ہمسفر تصور کرتی تھی، یہ سب باتیں بے معنی ہوجاتی ہیں۔

ہاں اپنی ذمہ داریاں سنبھالتے سنبھالتے اپنے ہی خیالوں میں وہ یہ گلہ اپنے ماں باپ سے ضرور کرتی ہے کہ آخر اسکا رشتہ کراتے وقت اس سے اس کی مرضی کیوں نہیں پوچھی گئی۔ والدین بڑے ناز پیار سے اپنی بیٹیوں کو بڑا کرتے ہے لیکن جب بیٹیاں شادی کی عمر کو پہنچ جاتی ہے تو پھر والدین یہ نہیں دیکھتے کہ ان کی بیٹی کی کیا مرضی ہے بس جو بھی رشتہ آجاتا ہے تو ہاں کرکے پوری زندگی کے لئے اپنی بیٹی کا ہاتھ کسی اور کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔

کیا لڑکی کا یہ حق بھی نہیں کہ وہ اپنی مرضی کا ہمسفر پسند کرے؟ "اگر سگے والدین رشتہ کرتے وقت اس بات کو خیال نہیں رکھتے تو باقیوں سے وہ کیا ہی امید رکھے گی۔”

نوشہرہ سے تعلق رکھنے والی عرشیہ احمد کا رشتہ بھی ان کی مرضی کے بغیر ہوا ہے جس نے اردو میں گریجویشن کیا ہے اور ایک بد مزاج شوہر کے ساتھ زندگی کے کٹھن مراحل گزارنے پر مجبور ہے۔ عرشیہ کا کہنا ہے کہ یہ بڑوں کے فیصلے تھے اور اسے ان کی خلاف ورزی کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔

عرشیہ کہتی ہیں کہ انہوں نے گریجویشن کیا ہے لیکن زندگی کے جس موڑ پر وہ اب ہے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ کبھی سکول کالج کے پاس سے بھی نہیں گزری۔ میں نے یہ سوچنا بھی چھوڑ دیا ہے کہ میری بھی کوئی زندگی تھی, اپنے لئے جینا تو میں کب کی بھول گئی ہوں۔

عرشیہ زندگی کے ان تلخ حالات سے لڑتے لڑتے اب ذہنی مریضہ بن گئی ہے اور علاج کروا رہی ہیں۔ عرشیہ کا کہنا ہے کہ ان کی شادی کو کئی سال گزرگئے شادی کے بعد انھیں ایسا کوئی نہیں ملا جس سے بات کر کے وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر سکے، سسرال والے بات سننے کو تیار ہی نہیں ہے اور گھر والوں کو اگر بتایا جائے تو انہیں تکلیف کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

عرشیہ کا کہنا ہے کہ وہ ایک بیٹی ہے، اور بیٹی ہونا ہی ان کا قصور ہے، والدین نے شادی کا فیصلہ کرتے وقت ان کی رائے کو نظر انداز کیا جس کی قیمت وہ چکارہی ہے مگر وہ پھر بھی اسے مقدر کی لکیر سمجھ کر صبر سے اچھے وقت کا انتظار کر رہی ہے۔

اور وہ کرے بھی تو کیا، آخر کو بیٹی جو ہے۔۔۔۔۔

حدیبیہ افتخار ایک فیچر رائیٹر اور بلاگر ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button