"اپنا گھر بچانے کی خاطر میں نے اس بچے کو اغوا کیا”
سندس بہروز
پچھلے دنوں نوشہرہ کے علاقے مصری بانڈہ میں ایک نومولود بچے کی اغوا کا کیس سامنے آیا۔ بچے کی ماں کے مطابق ان کے گھر کے دروازے پر دستک اس وقت ہوئی جب گھر پر اس کے سوا کوئی نہیں تھا۔ دروازہ کھولنے پر اس نے برقع میں ڈھکی ہوئی دوعورتیں دیکھی جنہوں نے انکے منہ پر سپرے کیا اور اس کے بعد انکو کچھ ہوش نہ رہا۔ ہوش آنے پر دیکھا کہ انکا بچہ گھر سے غائب ہے۔
کچھ دنوں بعد بچہ انہیں کے علاقے کی ایک عورت کے پاس سے برآمد ہوا۔ اس اغوا میں دو عورتیں ملوث تھیں جو آپس میں ماں اور بیٹی تھی۔ بیٹی نے پولیس کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ میری اولاد نہیں ہے۔ میرا شوہر رکشہ چلاتا ہے۔ بے اولادی کی وجہ سے وہ مجھے طلاق کی دھمکی دیتا تھا۔ اپنا گھر بچانے کی خاطر میں نے اس بچے کو اغوا کیا جس کا پتہ مجھے میری ماں نے دیا۔ ماں نے اپنے بیان میں کہا کہ بیٹی کی فریاد میں سہہ نہ سکی اور اس کے ساتھ مل کر یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو گئی۔ ماں کا کمال دیکھیے کہ حالات کا جائزہ لینے کے لیے بعد میں بچے کی ماں کے پاس افسوس کرنے بھی گئی اور اس کی آہ و بکا سن کر بیٹی کو بچہ واپس کرنے کا مشورہ بھی دیا مگر بیٹی بضد تھی کہ میری خوشیاں اب اس بچے سے وابستہ ہے، یہی بچہ اب میرا گھر بچا سکتا ہے۔
اس واقعے نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کیا۔ اول تو یہ کہ بے اولادی عورت کا قصور نہیں ہے نہ ہی مرد کی وجہ سے ہوتی ہے بلکہ یہ تو اللہ کی طرف سے ایک ازمائش ہے۔ کبھی کبھار کسی طبی مسئلے کی وجہ سے اولاد نہیں ہو پا رہی ہوتی (جس کا علاج ممکن ہے) مگر بعض دفعہ سب ٹھیک ہونے کے باوجود بھی جوڑے اس نعمت سے محروم رہتے ہیں۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے اس جوڑے کی آزمائش ہے۔ کمی ہمیشہ عورت میں نہیں ہوتی کبھی کبھار مرد بھی بے اولادی کا سبب ہو سکتے ہیں۔ مگر میں اس پر بات نہیں کروں گی۔
میرا اصل مدعا یہ ہے کہ کیا اس کا حل طلاق ہے اور ایسی کیا وجہ ہے کہ یہاں بات طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ معاشرے کی طرف سے اگر مرد پر دباؤ ہے تو اس سے کئی زیادہ دباؤ عورت پر بھی ہے مگر پدر شاہی معاشرے کے مرد تو پھر ہر دباؤ سے چھٹکارا پانے کا ایک ہی طریقہ آزماتے ہیں: عورت پر تشدد۔ چاہے وہ تشدد تانوں کی صورت میں ہو یا دھمکیوں کی صورت میں یا مار پیٹ کی صورت میں۔
معاشرے کی طرف سے دباؤ میں انے والا مرد اپنی عورت کو طعنے دے کر دھمکیاں دے کر اور مار پیٹ کر اس قدر لاچار کر دیتا ہے کہ وہ مامتا سے بھرپور عورت کسی اور کے بچے کو اغوا کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ اور وہ ایسا اپنی مامتا کو تسکین دینے کے لیے نہیں بلکہ اپنا گھر بچانے کی خاطر کرتی ہے۔ کیونکہ وہ بخوبی جانتی ہے کہ یہاں صرف اس کا شوہر اور ساس نند اس کو طعنہ دے رہے ہیں مگر یہاں سے نکلنے کے بعد پورا معاشرہ اس کو طلاق یافتہ ہونے کا طعنہ دے گا۔ گویا بے اولادی کوئی جرم ہے یا اس کا گھر ٹوٹنے کی واحد ذمہ دار صرف یہ ہے۔
اس میں قصور ہمارا بھی ہے۔ شادی کے چند دنوں بعد اولاد کے حوالے سے طرح طرح کے سوالات پوچھنا شروع ہو جاتے ہیں جس سے نئے جوڑے پر دباؤ بڑھتا ہے اور زچ آکر آخر کار وہ اغوا جیسے اوچے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جس سے نہ صرف ان کو ذاتی نقصان پہنچتا ہے بلکہ معاشرے کا امن و سکون بھی برباد ہوتا ہے۔
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ہمیں ایسے سوال نہیں کرنے چاہیے جس سے کسی دوسرے میں کمی کا احساس اجاگر ہوتا ہو؟
سندس بہروز انگریزی میں ماسٹرز کر رہی ہیں اور اور سماجی مسائل پر بلاگرز بھی لکھتی ہے۔