ترکی کے وزٹ نے مجھے ملازمت سے نکالا
رانی عندلیب
کبھی کبھی آپکی کامیابی ملازمت کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ بظاہر بڑے بڑے لوگ نظر آنے والے بھی پروفیشنل جیلسی اور ذہنی مریض ہوتے ہیں۔
میں فری لانس صحافت کرتی ہوں اور ٹرائبل نیوز نیٹ ورک کے لئے ریگولر بلاگز لکھتی ہوں۔ اسکے ساتھ ساتھ میں اپنی پڑوسی ملک ہندوستان کے ایک اخبار کے لئے بھی لکھتی ہوں۔ اس سال مجھے پولیو پروگرام میں وائس آف امریکہ ڈیوہ کی جانب سے ترکی جانے کا موقع ملا جو میرے لئے قابل فخر تھا۔ اس خوشگوار سفر کے بعد لوگوں کی تنگ نظری اور منفی سوچ سامنے آتی گئی۔
فری لانس کام کے ساتھ ساتھ میں ایک پرائیوٹ سکول میں پچھلے کئی سالوں سے بطور ایڈمن کام کرتی تھی۔ ترکی واپس آنے کے بعد سکول پرنسپل سمیت مالکان کا رویہ تبدیل ہوگیا تھا۔ وہ طرح طرح سے مجھے ذہنی طور پر ٹارچر کرتے تھے میرا ہر کام بار بار چیک کرتے اور بغیر کسی غلطی کے ساتھ یہ بھی کہتے تھے کہ آپکا ذہن تو کہیں اور ہے۔
جب بھی میرا بلاگ یا کوئی اور فیچر شائع ہوتا تو اس دن خاص طور پر میٹنگ میں مجھے ٹارگٹ بنایا جاتا۔ میراویس جو اس سکول کا مالک ہے تمام اساتذہ کے سامنے مذاق اڑاتے کہ رانی پتہ نہیں کس کے لئے لکھتی ہیں میں تو کبھی پڑھتا بھی نہیں ہوں اور میں کیا کوئی بھی نہیں پڑھتا۔ لیکن ان باتوں سے میں کبھی دل برداشتہ نہیں ہوئی کیونکہ ناکام اور احساس کمتری میں مبتلا لوگوں کے پاس تنقید کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
ہر طرح سے مجھے تنگ کیا گیا لیکن میرا ایک اصول ہے میں کبھی ہار نہیں مانتی اس لئے سکول کے مالکان اور پرنسپل شعیب ، میر اویس اور سہیل نے اپنے ایک بندے جسکا نام اصغر ہے اسکو گرلز سیکشن میں بھیج دیا اور کہہ دیا کہ انکو اتنا تنگ کرو کہ یہ لڑکی خود استعفیٰ دے دیں کیونکہ ان کو سکول سے فارغ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
اصغر نے نا صرف مجھے بلکہ تمام اساتذہ کو مختلف طریقوں سے تنگ کرنا شروع کیا جیسے انکے کلاس میں جا کر بیٹھ جانا، اساتذہ سٹاف روم میں بیٹھ جانا ، چونکہ وہاں پر واش روم بھی تھا تو اساتذہ سٹاف روم اکیلی نہیں جا سکتی تھی تو واش روم تو دور کی بات تھی وہ کس طرح ایک غیر مرد کے سامنے واش روم جاتی۔ تو اول تکرار تو اس بات پر ہوئی کہ اصغر صاحب آپ اسطرح سٹاف روم میں نا بیٹھا کریں اساتذہ مجھے شکایت کرتی ہیں لیکن اصغر نے کہا کہ مجھے یہاں مالکان نے بٹھایا ہے۔
اصغر اساتذہ کو کہتا تھا کہ آپ صحت مند ہو کیوں ، کچھ کو کہتا کہ آپ تو بہت کمزرو ہو کچھ کھاتی پیتی نہیں ہو کیا ؟۔
ایک دن ایک انٹرنیشنل میڈیا ادارے سے مجھے کال آئی میں ان سے کال پر بات کر رہی تھی تو ایک سائیڈ پر ہوئی تو اصغر میرے پیچھے کھڑے رہے۔ میری باتیں سنتے رہے جو ایک غیر اخلاقی حرکت تھی اس بات پر کافی بحث ہوئی۔ جب میں نے سہیل اور شعیب سے شکایت کی تو الٹا انہوں نے مجھے باتیں سنا کر ایکسپلنیشن دی گئی۔ کیونکہ میں ایڈمنسٹریشن میں ہوں تو ہمیں موبائل استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
2 دسمبر کی صبح جب میں اپنے 3 بھتیجوں کے ساتھ سکول گیٹ پر پہنچی تو سکول چوکیدار نے وہاں روک لیا کہ اندر نہیں جا سکتی۔ کس وجہ سے مجھے سکول کے اندر نہیں آنے دے رہے تھے۔ سکول کے چاچا نے مجھے جو بات بتائی وہ مجھے اتنی ناگوار گزری کہ اک دم سے میں نے اپنا موبائل پرس سے نکالا اور کہا اچھا آپ جو کہہ رہے ہیں، وہ دوبارہ کہہ دے کہ سکول کے پرنسپل نے مجھے سکول انے سے کیوں منع کیا ہے میں اڈیو ریکارڈنگ کرتی ہوں یا پھر میں ویڈیو بناتی ہوں۔ وہاں پہ موجود تمام لوگ دیکھ رہے تھے میں نے سب کے سامنے سکول کے چاچا سے کہا یہ تمام باتیں اب کہو تو چاچا ڈر گئے۔ وہ دوبارہ یہ بات نہیں کہہ سکتے تھے چاچا دوسری طرف بھاگ گئے اور کہا کہ ان سب کے سامنے میں یہ بات نہیں کہہ سکتا۔”
چاچا کے کہنے کے مطابق پرنسپل نے کہا کہ رانی کو کچھ بھی نہیں آتا اب وہ اس گیٹ کے اندر نا آئے۔ میں پچھلے کئی سالوں سے اس سکول میں ٹیچنگ کر رہی تھی۔ تو وہ کیا تھا؟ کیا سکول والے اتنے اچھے ہیں کہ مفت میں تنخواہ دیتے ہیں۔ میں نے تو کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں دیکھا جو مفت میں پیسے دیتے ہو۔
میں خود ہی ملازمت چھوڑ رہی تھی لیکن 3 بھتیجوں کی خاطر سکول کی بے جا سختی برداشت کر رہی تھی تاکہ ان کا سال ضائع نا ہو۔ لیکن میرے ساتھ ان بچوں کو بھی سکول سے خارج کر دیا گیا ہے اور ساتھ میں 2 مہینوں کی تنخواہ دینے سے بھی انکاری ہیں اور ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ان کے پاس میرے تعلیمی اصلی اسناد بھی ہیں جو دینے سے انکاری ہیں۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی میں اتنی آسانی سے ہار نہیں مانتی۔ مجھے ملازمت جانے کی کوئی فکر نہیں لیکن اپنی بے عزتی اور 3 بھتیجوں کا سال ضائع ہونے کا دکھ ہے۔ صوبائی محتسب رخشندہ ناز سے سے کافی تسلی بخش بات ہوئی ہے اس سلسلے میں۔ انہوں نے اپنی طرف سے مکمل مدد کرنے کی یقین دہانی کی ہے۔ شاید میں چند ان خواتین میں شامل ہوں جس نے ہرجانے کا کیس دائر کیا ہے اور امید ہے کہ مجھے انصاف ضرور ملے گا۔
نوٹ۔ ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔