بلاگزلائف سٹائل

"تم لوگ بھی سکھ کا سانس نہیں لو گے تم لوگوں کی وجہ سے میں بے گھر ہو رہا ہوں”

 

سعدیہ بی بی

آج سے کچھ سال قبل بھی افغانیوں کو ملک بدر کرنے کی کمپین شروع ہوئی تھی جو کامیاب نہ ہو سکی اور اج کتنے سال بعد پھر سے وہی مہم شروع ہوئی ہے جو کامیابی سے جاری ہے۔ اس دوران بہت سے افغان خاندان اپنے اپنے گھروں یعنی ( افغانستان ) کو لوٹ گئے لیکن ابھی بھی افغانیوں کی کثیر تعداد پاکستان میں موجود ہے جن کے خلاف کاروائیاں ہو رہی ہیں اور پاکستانی عوام کو بھی اس میں شامل کیا گیا ہے کہ وہ حکومت کا ساتھ دیں کہ اگر ان کے شہر ، قصبے یا محلے میں کوئی افغان خاندان رہ رہا ہے تو ان کے خلاف شکایت کریں تاکہ بروقت کاروائی کر کے ان کو ان کے ملک بھیجا جائے۔ اس مقصد کے لیے مختلف واٹس ایپ گروپس بنائے گئے ہیں تاکہ ان گروپس میں اہم معلومات اور نمبرز شیئر کئے جاسکیں جس سے یہ پتہ چل سکے کہ کس محلے میں افغان خاندان رہ رہا ہے۔

جانے والے کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے پاکستان سے محبت کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ کا یہاں وقت بہت اچھا گزرا۔ وہ اس ملک سے جانے پر اظہار افسوس کر رہے تھے کیونکہ ان کو پاکستان سے لگاؤ تھا اس لیے ان کو پاکستان اور یہاں کے لوگوں کی قدر تھی۔ لیکن اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے جاتے جاتے پاکستان کو برا بھلا کہہ دیا۔ ہمارے محلے میں بھی بہت سے افغان خاندان رہ رہے تھے۔ ان میں سے کچھ تو اپنے ملک کو لوٹ گئے اور کچھ جانا ہی نہیں چاہتے تھے وہ یہی بول رہے تھے کہ یہاں ہمارا اپنا گھر ہے ہمارا کاروبار ہے ہم کیسے اسے چھوڑ کر چلے جائیں۔

کچھ دن پہلے محلے کے سربراہ نے ان سے بات کی کہ آپ کے خلاف کاروائی شروع ہو چکی ہے آپ اپنے ملک کو لوٹ جائے لیکن وہ ان کی بات سننے کے بجائے لڑنے جھگڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔ محلے والوں کو مجبورا ان کے خلاف شکایت کرنی پڑی کیونکہ کوئی بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ یہ لوگ یہاں مزید رہیں۔ ائے دن ان کی وجہ سے محلے کا امن خراب ہو رہا تھا۔ ان کے خلاف شکایت درج ہوئی اور دو پولیس کانسٹیبل ان کے گھر ائے ان سے بات کی۔ سارے محلے والے اکٹھے ہو گئے۔ میں بھی بازار سے گھر آرہی تھی کہ میں نے اپنی انکھوں سے یہ منظر دیکھا کہ ایک پولیس کانسٹیبل نے ایک افغان شہری کو مضبوطی سے اپنے ہاتھوں میں جکڑا ہوا ہے اور وہ بندہ محلے والوں پر اپنا غصہ اتار رہا تھا اور بار بار یہی بول رہا تھا کہ میں نے تم لوگوں کا کیا بگاڑا ہے کیا میں دہشت گرد ہوں جو تم لوگوں نے میرے خلاف شکایت درج کی ہے۔ اس وقت میرا دل اس بندے پر دکھ رہا تھا لیکن محلے والے بھی اپنی جگہ ٹھیک تھے کیونکہ انہوں نے کبھی اسے کچھ کہا ہی نہیں تھا۔ پھر اس کا شناختی کارڈ چیک کیا تو پتہ چلا کہ یہ غیر رجسٹرڈ افغانی ہے۔ کوئی پاسپورٹ بھی نہیں تھا  کوئی رجسٹریشن نہیں ہوئی تھی۔

پولیس نے انکو ایک دن کی مہلت دی تو ان کو مجبورا اپنا سامان وغیرہ باندھنا پڑا لیکن جاتے جاتے گالیاں دیتا گیا اور ساتھ ساتھ یہ بھی بول رہا تھا کہ تم لوگ بھی سکھ کا سانس نہیں لو گے تم لوگوں کی وجہ سے میں بے گھر ہو رہا ہوں۔ محلے والے بھی بولنے لگے ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا جو اپ ہمیں بد دعائیں اور گالیاں دے رہے ہیں۔ اس ملک میں رہے اپ کو بہت لمبا عرصہ ہو گیا ہے اور اپ لوگ یہاں ایسے رہے ہو جیسے لوگ اپنے ملک میں رہتے ہیں۔ ہم نے اپ لوگوں کو رہنے کے لیے جگہ دی بھائی بہن بنا کر رکھا اور اج جب جانے کا وقت ایا تو اپ اسی ملک کے لوگوں کو گالیاں دے رہے ہو۔

کوئی بھی کسی کو ملک میں اس وقت تک رہنے نہیں دیتا جب تک پاسپورٹ نہ ہو رجسٹریشن نہ ہوئی ہو لیکن اس ملک نے کتنے سال پناہ دی اور اج یہ صلہ دے رہے ہو ۔ یہ سب سن کر اس کا منہ بند ہو گیا لیکن پھر بھی وہ اکڑ نہیں گئی۔ اس کو یہی لگ رہا تھا کہ اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں۔ سب کا رویہ بہت اچھا چل رہا تھا اس کے ساتھ لیکن شاید وہ ان سب کو اپنا دشمن سمجھ رہا تھا۔

پاکستان اس وقت مسائل کی بھنور میں پھنس چکا ہے اور ایسے میں پاکستان کے لیے (ائی ڈی پیز) اور افغان ریفیوجیز کو سنبھالنا بہت مشکل ہے کیونکہ اگر اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے مسائل کو دیکھا جائے تو وہ تین ہیں۔ ماجی معاشی، سیاسی اور سیکیورٹی مسائل۔ پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ سیاسی بحران ہے اور دوسرا بڑا بحران سیکیورٹی کا ہے۔ ائے روز اس میں خودکش دھماکے ہو رہے ہیں۔ کاروائی ان کے خلاف کی جا رہی ہے جو کہ غیر رجسٹرڈ تھے جن کی رجسٹریشن نہیں ہوئی تھی جو لیگل طریقے سے پاکستان نہیں ائے تھے تو ایسے میں افغانوں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ہمارے ملک یا اس کئ باسیوں کو برا بھلا کہے۔

میرے خیال میں پاکستان کو سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ ہم ایک ناکام ریاست بننے کے دھانے پر ہیں تو ایسے میں ہم مہاجرین کو مزید پناہ کیسے دیں۔

سعدیہ بی بی  کمپیوٹر سائنس کی طالبہ ہیں اور مختلف سماجی و معاشی مسائل پر بلاگز لکھتی رہتی ہیں۔ 

نوٹ۔ ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button