بلاگزلائف سٹائل

کم عمری کی شادی نے ثمرینہ سے اس کا سب کچھ چھین لیا

 

بشریٰ محسود 

والدین ہمیشہ اولاد کا بھلا ہی سوچتے ہیں اور لڑکیوں کے معاملے میں تو اور بھی زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ خاص طور پر لڑکی کی شادی کے معاملے میں اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ جلد سے جلد یہ فرض انجام دیا جائے اور اس جلد بازی میں وہ اپنی بچی کی کم عمری کا خیال نہیں رکھ پاتے جس کا نقصان پھر ساری عمر لڑکی کو اٹھانا پڑتا ہے۔

قبائلی اضلاع میں کم عمری کی شادی کا رجحان عروج پر تھا ( ایک زمانے میں ) اب تھوڑے حالات بدل چکے ہیں لیکن اب بھی بے شمار لڑکیاں کم عمری کی شادیوں کے مسائل کا سامنا کر رہی ہیں۔ ان لڑکیوں میں سے ایک ثمرینہ بھی ہے۔  ثمرینہ کی شادی 13 سال میں کردی گئی تھی اور شادی کے دو سال بعد ہی ثمرینہ حاملہ ہو گئی تھی لیکن کم عمر ی اور ناسمجھی میں ثمرینہ کو علم بھی نہیں ہوا اور وہ گھر کے بھاری کام بھی معمول کے مطابق کرتی رہی۔ ایک دن اُس کی طبعیت اچانک خراب ہو گئی ، اور جو تین ماہ سے اُس کی ماہواری بند تھی پھر جب اُسے ڈاکٹر کو دکھایا تو معلوم ہوا کہ 3 ماہ کا حمل تھا کہ جو احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے ضائع ہو چکا ہے جس پر سب گھر والے بہت پریشان ہوئے اور ثمرینہ کو ڈانٹے لگے کہ اتنا بھی معلوم نہیں کہ تم حاملہ ہو۔

ثمرینہ ایک طرف بچہ کھو جانے کے غم میں نڈھال تھی تو دوسری طرف جسمانی تکلیف کا سامنا تھا اور گھر واپسی پرگھر والوں کا نامناسب رویہ بھی اُسے تکلیف دے رہا تھا۔ ایک 15 سالہ بچی کے لیے یہ سب بہت مشکل ہوتا ہے برداشت کرنا۔

وقت گزرتا گیا اور اب سرال والوں کی طرف سے اولاد کی فرمایش زور پکڑنے لگی اور ساتھ ساتھ میں یہ طعنہ بھی سننے کو ملتا کہ تم نے لا پرواہی کی اپنا بچہ کھو دیا اور یوں ثمرینہ کی شادی کو آٹھ سال گزار گئے لیکن ثمرینہ کے ہاں اولاد نہیں ہوئی۔ اُس کے سسرال والے اس کے شوہر کی دوسری شادی کی باتیں کرنے لگے۔

اب ثمرینہ شدید ڈپریشن کا شکار ہو گئی ایک طرف بار بار اُسے یہ احساس دلایا جاتا تھا کہ اپنے بچے کو کھونے کی ذمے دار تم خود ہو اوردوسری طرف اسے کہا جاتا کہ اب تم خود ہی اپنے شوہر کی دوسری شادی کے لیے لڑکی دیکھو گی۔ یہ تمام باتیں ایک کمسن لڑکی کے لیے بہت اذیت ناک ہوتی ہے۔

جن باتوں کا ذمہ دار ثمرینہ کو ٹھہرایا جاتا ہے اصل میں ذمہ دار ثمرینہ کے والدین ہے اور پھر اُس کے سرال والے۔ نہ اُس کے گھر والے کم عمری میں ثمرینہ کی شادی کرتے اور نہ وہ اپنی نادانی و کم علمی کی وجہ سے اپنا بچہ کھوتی۔ اب وہ ہمیشہ کے لیے ایک ذہنی مریضہ کی طرح احساس کمتری کی زندگی گزاریں گی۔

والدین کو چاہئے کہ اول تو لڑکیوں کی شادی کم عمری میں کریں ہی نہیں اور اگر کرنی بھی ہو تو پھر اپنی بیٹی کو تمام ضروری معلومات فراہم کریں تاکہ دوسرے گھر جاکر اُسے مشکلات کا سامنا نہ ہو۔ ثمرینہ کی طرح بے شمار لڑکیاں کم عمری کی شادی کے بعد اپنی ناسمجھی کی وجہ سے جسمانی مشکلات کے ساتھ ساتھ بےشمار ذہنی مسائل کا سامنا کر رہی ہیں۔
ہمیں چاہئے کم عمری کی شادیوں کے خلاف باقاعدہ آگاہی مہم چلائے جس میں والدین کو بتایا جائے کہ کم عمری کی شادی سے اُن کی بچی کن مشکلات کا شکار ہوسکتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button