بلاگزلائف سٹائل

کیا فیس بک پر دوستی کے بعد ہونے والی شادی کامیاب ثابت ہو سکتی ہے؟

 

رعناز

کچھ دن سے سوشل میڈیا پر ایک سٹوری بہت وائرل ہو رہی ہے۔ یہ سٹوری ایک پاکستانی لڑکے نصراللہ اور انڈین لڑکی انجو کی ہے۔ انجو پچھلے کچھ دن سے پاکستان میں ہے اور یہاں آکر اپنے فیس بک کے ذریعے بنے ہوئے دوست نصر اللہ سے نکاح کر لیا ہے۔ یہ انجو  نامی لڑکی پہلے سے شادی شدہ تھی۔ اس کے دو بچے بھی ہیں۔ انجو اپنے سارے خاندان کو انڈیا میں چھوڑ کر یہاں پاکستان آئی ہے اپنے دوست سے شادی کرنے۔ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آرہیا کہ آخر یہ لوگ کس طرف جا رہے ہیں؟ کیسے کوئی اپنے شوہر اور بچوں کو چھوڑ کر کسی اور سے شادی کر سکتا ہے؟ آخر یہ ہمارے معاشرے کے لوگوں کو ہو کیا گیا ہے کہ اپنے بسے بسائے گھر کو توڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔

انجو کے والد نے میڈیا کو بتایا ہے کہ یہ لڑکی ہمارے لیے مر چکی ہے۔ یہ اب ہماری بیٹی نہیں ہے کیونکہ اس نے اپنے بچوں اور شوہر کے بارے میں ذرا بھی نہیں سوچا اور چلی گئی۔ یہاں پر میں یہ سوال پوچھنا چاہوں گی کہ کیا فیس بک پر ہونے والی دوستیاں اتنی اہم ہو گئی ہے کہ ایک انسان اپنے خاندان تک کو چھوڑے ؟ کیا ان کے پاس کوئی گارنٹی ہوتی ہے کہ یہ فیس بک پر ہونے والی دوستیاں اور شادیاں کس حد تک کامیاب رشتے ثابت ہو سکتے ہیں؟

میرے خیال میں تو یہ شادیاں زیادہ دیر تک نہیں رہتی اور نہ ہی کامیاب ہوتی ہے۔ یہ قصہ صرف انجو اور نصر اللہ کا نہیں ہے بلکہ ہمارے سامنے ایسی بہت ساری مثالیں ہیں۔ جیسے یہ لڑکی انجو پاکستان آئی ہے اسی طرح بہت سارے لوگ پاکستان سے انڈیا بھی گئے ہیں صرف اور صرف سوشل میڈیا پر ہونے والے بے بنیاد دوستیوں کے بنا پر۔ اس کی زندہ مثال سیما حیدر ہے جو پاکستان چھوڑ کر انڈیا چلی گئی ہے۔ سیما حیدر اپنے چار بچوں سمیت انڈیا گئی ہے جہاں اس نے سچن نامی لڑکے سے شادی کرلی ہے۔

اگر ہم اپنے ملک کے اندر بھی دیکھیں تو یہاں بھی لڑکا لڑکی کی فیس بک پر ہونے والی دوستیاں بہت عام ہے جس کا کوئی فائدہ تو مجھے نظر نہیں آتا ہاں البتہ نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ یہاں پر لڑکا ہو یا لڑکی دونوں اپنے فیس بک پروفائل پر اپنی تصویر کی جگہ کسی اور کی تصویر لگا لیتے ہیں ۔اسی طرح اپنے پروفائل کو مضبوط بنانے کے لیے جھوٹ موٹ کی اعلی نوکری پر بھی خود کو فائز کر لیتے ہیں۔ خود کو بہت ہی اعلی تعلیم یافتہ ظاہر کرتے ہیں اور اندر سے کچھ بھی نہیں ہوتے۔ دراصل یہ سارے شوشے انہوں نے  صرف دوسروں کو امپریس کرنے کے لیے چھوڑے ہوئے ہوتے ہیں۔

میرا ماننا تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ہونے والی دوستی صرف ٹائم پاس ہوا کرتی ہے۔ دونوں کی اصلیت جب ایک دوسرے کے سامنے آتی ہے تو پھر دونوں میں سے ایک بھی دوسرے کو اپنانے کے لیے تیار نہیں ہوتا ۔تو اگر اختتام ایسی ہی ہونی ہے تو پھر یہ دھوکہ دینا کیوں ؟ اپنے والدین اپنے گھر والوں کی عزت خراب کرنا کیوں؟

کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ایک شادی شدہ مرد یا عورت اس قسم کی حرکتیں کریں گی تو ان کے بچوں کی زندگی پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ یقینا منفی اثرات ہی ہوں گے۔ وہ بچے کبھی ان ماں باپ کی قدر اور عزت کر ہی نہیں سکتے ۔دوسری طرف اس بات کا بھی خدشہ ہو سکتا ہے کہ وہ بچے بھی کل بڑے ہو کے وہی حرکتیں کریں گے جو ان کے ماں یا باپ نے کی ہوئی ہوتی ہے۔

مطلب ایک غلط حرکت یا فیصلے سے پورا خاندان متاثر ہو سکتا ہے۔ لہذا ہمیں ان سوشل میڈیا  پر ہونے والی  دوستیوں اور شادیوں  کی عادت کو ختم کر دینا چاہیے ۔اس ٹائم پاس کا بائیکاٹ کر دینا چاہیے ۔ان غلط حرکتوں سے باز آجانا چاہیے۔ ہمیشہ اپنے  والدین اور خاندان سے ہی مخلص ہونا چاہیے۔ سیدھے راستے پر چل کر خوشگوار زندگی گزارنی چاہیے تاکہ کسی کو بھی ہماری وجہ سے کوئی تکلیف نہ ہو اور ہم کسی دوسرے کی زندگی خراب نہ کرے۔

ریناز ٹیچر اور کپس کالج مردان کی ایگزام کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button