بلاگزلائف سٹائل

"بچوں کو موبائل فون تھما کے جان چھڑا لیتی ہوں”

نازیہ

پچھلے دنوں ہماری فیملی میں ایک فنکشن تھا۔ میری کزن کا ایک بیٹا تھا جو کہ لگاتار رو رہا تھا۔ جیسے ہی وہ روتا وہ ڈائریکٹ اس کے ہاتھ میں موبائل تھما دیتی۔ بس پھر میں سمجھی شاید یہ بیچاری مہمانوں کی وجہ سے اس بیٹے کو موبائل دے رہی ہے تاکہ یہ چپ ہو جائے اور مہمانوں کو سنبھال لیں۔ اسی دوران ان کا تھوڑا سا بڑا بیٹا ایا تقریبا پانچ چھ سال کا تھا وہ بھی رو رہا تھا تو اس نے اس کے ہاتھ میں ٹیبلٹ تھما دیا کہ یہ لو اب چپ ہو جاؤ۔

اپ میرا یقین مانیں جیسے اس نے اپنے بیٹے کے ہاتھ میں ٹیبلٹ دیا وہ ایسے یک دم خاموش ہوا جیسے اس کو نشے کا انجیکشن لگایا ہو۔ پھر میں نے کہا ہے ارے بہن یہ اپ کیا کر رہی ہیں جیسے اپ کے بچے روتے ہیں تو اپ سیدھا ان کے ہاتھ میں موبائل یا ٹیبلٹ وغیرہ تھما دیتی ہے اس سے تو ان کی تربیت خراب ہوگی اور یہ پھر اس کی ڈیمانڈ اور بھی زیادہ کریں گے تو پتہ ہے بیچاری نے اگے سے پھر کیا کہا؟ کہنے لگی کہ”کیا کروں یا اس گھر کو سنبھالوں گی یا اپنے بچوں کو جوائنٹ فیملی سسٹم میں تو ہزار مسئلے ہوتے ہیں اس لیے تو موبائل کے ذریعے ہی بچوں جان چڑا لیتی ہوں”

سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی نے جہاں ایک طرف بچھڑے ہوؤں کو ایلفی کی طرح جوڑ کر رکھا ہوا ہے تو دوسری جانب کئی لوگوں کو ایک دوسرے سے دور بھی کیا ہوا ہے۔

بد قسمتی کہوں یا پھر خوش قسمتی کیونکہ پاکستان میں انٹرنیٹ سروسز ہر چھوٹے بڑے فرد کے پاس موجود ہے۔ بہت سے کم والدین ایسے ہیں جو اپنے بچوں کی تمام تر سرگرمیوں پر نظر رکھ سکے۔ ان ڈیوائسز کی وجہ سے یہ بچے شیطان کے پنجے میں اس طرح سے پھنس جاتے ہیں کہ پھر ان پنجوں سے نکلنا کافی مشکل ہوتا ہے کیونکہ طرح طرح کے لوگ، عجیب و غریب چیزیں، جدت اور دنیا کے کسی بھی کونے میں ہونے والے واقعات سے روشناس ہوتے ہیں۔

موبائل کی اس عجیب و غریب دنیا میں خاص کر انلائن گیمز میں بچوں کا دل، دماغ اور دلچسپی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ پھر وہ سرچ کے آپشن کا استعمال ایک نہ ختم ہونے والے حد تک کرتے ہیں۔

دعا زہرا اور ظہیر کا کیس تو آپ سب کو پتہ ہے کہ کیسے اس سوشل میڈیا کے ذریعے ہی ان لائن پب جی گیم میں دونوں کی ملاقات ہوئی تھی اور پھر یوں ہوا کہ ملک کا ہر فرد اس کیس سے واقف ہے۔ عدالت، میڈیا اور تقریبا ہر کسی نے دعا زہرہ کے والدین سے یہی ایک سوال پوچھا کہ کیا اپ کو پتہ نہیں تھا کہ اپ کی بیٹی کیا کر رہی ہے یا کیا کرنے جا رہی ہے۔ تو دعا زہرہ کے والدین یہی ایک بات کہتے کہ وہ تو موبائل میں لگی رہتی تھی ہمیں کیا پتہ تھا کہ یہ یہ گیم کھیل رہی ہے ہم سمجھیں کہ شاید یہ اس پہ سبق پڑھ رہی ہے۔ دعا زہرا کا کیس محض ایک کیس نہیں ہے روزانہ کی بنیاد پر ایسے  واقعات رونما ہو رہے ہیں۔

کرونا تو بذات خود ایک وبا تھا ہی لیکن اپنے ساتھ ایک دوسرا وبا بھی پھیلا کے کہیں چلا گیا۔ اس دوران تمام تعلیمی اداروں کے طلباء و طالبات کو گھر بیٹھے تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ والدین نے بچوں کو چاہتے و نا چاہتے ہوۓ موبائل و لیپ ٹاپ ہاتھوں میں تھما دیے۔ اس میں وہ والدین بھی شامل تھے جو زبردستی سے اپنے بچوں کو موبائل کے استعمال سے منع کرتے تھے۔ لیکن کیا کریں کبھی کبھار ایک چیز مجبوری بن جاتی ہے کیونکہ یہی معصوم والدین خود ہی اپنے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل دینے پر مجبور ہوگئے تھے۔

اب ظاہر سی بات ہے اکیسویں صدی ہے ڈیجیٹل میڈیا کا تیز ترین دور چل رہا ہے۔ جب ان بچوں کے ہاتھوں میں موبائل آجاتے ہیں تو وہ جیسے چاہے اسے استعمال کرسکتے ہیں۔

والدین بیچارے تو یہی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہائے رے میرا بچہ مطالعہ کر کر کے تھک گیا ہے مگر یہ بچہ جو کر رہا ہوتا ہے وہ علم صرف اللہ اور اس بچے کو ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ تمام بچے ایسے ہونگے مگر ہر دوسرے تیسرے گھر میں یہ واقعات ہو رہے ہیں۔

اس بات سے بھلا انکار کیسے کہ آج کے اس دور میں امیر ہو یا غریب خاندان کا بچہ جلد ہو یا دیر سے ڈیجیٹل دنیا کا سامنا موبائل، ٹیبلٹ،  کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور یا  ٹی وی سے ضرور کرتا ہے۔

میں سمجھتی ہوں کہ اس دور میں بچوں کی جانب بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ ہر وقت کسی نا کسی ڈیجیٹل ڈیوائس کو ہاتھ میں لیے پھر رہے ہوتے ہیں۔ انکو کیا معلوم کہ اس میں اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے کیونکہ وہ تو وقتی سکون اور انٹرٹینمنٹ کے لیے استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔

والدین کو ڈیوائسز پر پیرینٹل کنٹرولز لگانا چاہئے کیونکہ اس کے ذریعے والدین کو پتہ چلتا ہے کہ ان کے بچے کون کون سے ایپس استعمال کر رہے ہیں اور ان پر کیا کیا دیکھ رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو غیر محفوظ سائٹس تک پہنچنے سے روک سکتے ہیں۔ لیکن سب والدین تو تعلیم یافتہ نہیں ہوتے ان کو ان چیزوں کا پتہ نہیں ہوتا ہے تاہم وہ اور طریقوں سے ان پر کڑی نظر رکھ سکتے ہیں۔

والدین نے اگر اپنے بچوں پر توجہ نہیں دی تو پھر ان کے بچے ایسے اندھیروں میں جا گریں گے کہ اس سے مدتوں نکلنا ممکن نہیں ہو گا۔

والدین کبھی بھی اپنے بچوں کو مکمل طور پر ان ڈیجیٹل ڈیوائسز سے دور نہیں رکھ سکتے ہیں مگر والدین کو بہترین انداز میں ان کی دیکھ بھال کرنی چاہیۓ تاکہ کل کو وہ ایک اچھا، پاک دامن اور قابل بچہ بن کراپنے دین اور ملک کا دفاع کرسکے۔

نازیہ بلاگر ہے جو مختلف سماجی مسائل پر بلاگز لکھتی ہے

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button