‘تور مخے بابا’: یہ حسین لمحات آج کل کے بچوں کے نصیب میں کہاں؟
سدرا آیان
سنہ دو ہزار کی دہائی میں پیدا ہونے والے بچوں کو اگر چہ وہ بنیادی ضروریات، مہنگے موبائل فونز اور ایپل لیپ ٹاپ کی سہولیات میسر نہیں تھی تاہم ان بچوں نے جو بجپن گزارا ہے وہ آج کل کے بچوں کے نصیب میں کہاں؟
مانا کہ اس وقت بچوں کے پاس اپنے کھیل کود کے لمحات کو قید کرنے کے لیے کوئی سمارٹ فون وغیرہ نہیں تھے لیکن وہ لمحات آج بھی اس وقت کے بچوں اور آج کے بڑوں نے اپنے دلوں میں قید کرکے رکھے ہیں، وہ آج بھی ان لمحات کو محسوس کرکے خود کو ماضی میں پاتے ہیں۔
ہمارے بچپن کی بات ہے کہ جب بھی بارش نہیں ہوتی تھی اور سخت گرمی ہوتی تو محلے کے بچے اکھٹے ہو جاتے تھے، چہرے پر کوئلہ سے کالا رنگ مَلتے اور گھر گھر جاکر ایک گانا گاتے اور ان سے اللّٰہ کے نام پر حلوہ بنانے کے لیے آٹا چینی مانگتے تھے۔ گانے کے کچھ فقرے آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں جیسے "تور مخي بابا ژاړي، په مخ څپېړه غواړي، یو چونګ اوړه غواړي ” جس کا مطلب اور مقصد یہ تھا کہ چاہے آپ ہمیں تھپڑ بھی مار دے لیکن ہمیں مٹھی بھر آٹا دیں۔
بچے اپنے محلے کے ایک ایک گھر جاکر اس گانے کے بول دہراتے اور آٹا مانگتے تھے۔ پھر چینی، گھی، برتن، لکڑی، ماچس اور تمام ضروری اشیا اکٹھا کرتے تھے۔ ان بچوں میں میرا بھائی بھی شامل ہوتا تھا، جب ہمارے گھر کی باری آتی تو وہ اکیلے آتا اور امی سے منت سماجت کرتا کہ تھوڑا سا گھی دے دو اور ہر بار اسے امی سے ایک زبردست قسم کی ڈانٹ پڑتی شائد پٹائی بھی ہوتی لیکن وہ کبھی ہاتھ نہیں آتا، ہم بہنیں خوب اس کی نقل اتارتے اور اس پر ہنستے، اس نے بہت کوشش کی لیکن کبھی امی سے آٹا گھی لینے میں کامیاب نہیں ہو سکا، پھر بچے باہر محلے میں آگ جلاتے اور حلوہ بنانے لگتے اور کہتے ۔ ۔ ۔ ۔ ‘يا الله باران وکړې‘ جس پر سارے بچے ایک ساتھ زور سے امین کہتے تھے۔
جب حلوہ تیار ہوتی تو سارے بچے اپنے گھروں سے پلیٹیں لے جاکر حلوہ کو تھوڑا تھوڑا کرکے سارے گھروں میں بانٹنے لگتے لیکن یہاں میرے بھائی کو ایک اور مشکل کا سامنا کرنا پڑتا تھا، وہ پھر سے کالے منہ کے ساتھ گھر آتا اور گیٹ کے پڑدے کے پیچھے چھپ کر ڈر ڈر کر کہتا ‘ امی ایک پلیٹ دے دوں نا’ جس پر امی اس سے کہتے تم آو تو سہی میں نے تمھارے ہاتھ پاؤں توڑ دینے ہیں۔ یہ سن کر ہم بھائی پر ہنس پڑتے اور پھر جب امی گھر کے کسی اور کام میں مصروف ہوتی تو وہ بے چارہ کاغذ پر حلوہ رکھ کر گھر لاتا، ہم بہنیں منتیں کرتیں کہ تھوڑا سا چکنے کے لیے تو دے دو نا، وہ کہتا نہیں تم پہلے میرا مزاق اڑاؤ اور بھی ہنسو مجھ پر، جس پر ہم پھر سے ہنسنے لگتے اور کہتے کہ ہم نے لڑکوں کے ہاتھوں بنا حلوہ کھانا بھی نہیں ہے، بغیر ہاتھ دھوئے حلوہ بنایا ہوگا جس سے لڑائی شروع ہوتی اور ہم سب کی خوب دھلائی ہوتی۔
اس عمل کے ایک دو دن بعد بارشوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا اور ضرورت سے زیادہ بارشیں برستی تب اکثر امی کہتی تھی کہ پرسوں بچوں نے بہت دعائیں مانگیں تھی اس لیے خدا نے رحمت برسائی، لیکن مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا کہ بارشوں کے موسم میں تو ویسے بھی بارشیں ہونی ہوتی ہے تو کیا یہ بچے فن کے لیے ہی یہ سارا کھیل کھیلتے ہیں جس پھر واقعی ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور بارش ہوتی ہے۔
خیر کچھ بھی ہو لیکن یہ سال بھر کا سب سے پسندیدہ اور یادگار کھیل ہوتا تھا جس سے آج کل کے زیادہ تر بچے ناواقف ہیں۔ اس وقت کے بچوں میں سے، جن کو میں جانتی ہوں، ایک درزی بن گیا، دوسرا مردان کے ایک مشہور مال میں کام کرتا ہے، میرا بھائی دبئی میں ہوتا ہے اور جب سے یہ لوگ بڑے ہوگئے ہیں ان کے بعد کسی نے ‘تور مخے بابا’ نہیں کھیلا، نہ کسی نے عید کی راتوں کو ٹائرز جلائی، نہ کسی نے محلے میں جاڑو لگائی۔
میں سمجھتی ہوں کہ ان کے بچپن کے ساتھ ساتھ محلے کی رونق بھی ختم ہو گئی اور بچے محلے میں کھیلنے کے بجائے گھروں میں موبائل فونز تک محدود ہوگئے۔