بلاگزلائف سٹائل

ورچوئل ریئلیٹی: صحافی اس جدید ٹیکنالوجی سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟

 

خالدہ نیاز

حکیم الامت نے کہا تھا

آنکھیں جو کچھ دیکھتی ہیں لب پہ آسکتا نہیں

محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

یقین مانیے آج کل میں علامہ کے اس شعر کی عملی تفسیر بنی پھر رہی ہوں، وہ کیسے؟ ذرہ سے توقف کے بعد آپ کو بتانے لگی ہوں۔ حوصلہ رکھیے۔

یہ مقولہ تو آپ نے بھی ضرور سن رکھا ہو گا کہ سیکھنے کا عمل محد سے لحد تک جاری رہتا ہے، اور پھر جب آپ کا تعلق شعبہ صحافت سے ہو تو ہر روز، ہر گھڑی آپ کو کچھ نا کچھ نیا سیکھنے کو ضرور ملتا ہے، یا پھر یوں سمجھ لیجیے کہ سیکھنا پڑتا ہے، صحافت کام ہی کچھ ایسا ہے۔

اسی طرح بعض مشاہدات، واقعات، یا پھر تجربات، کبھی تلخ تو کبھی خوشگوار، ایسے بھی ہوتے ہیں جو بھلائے سے بھی کبھی آپ بھلا نہیں پاتے۔ ایسا ہی ایک خوشگوار تجربہ حال ہی میں ہمیں بھی حاصل رہا۔۔ ورچوئل رئیلٹی (وی آر) کا تجربہ۔۔ جو اتنا خوشگوار، اور اچھا لگا کہ شاید ہی کبھی بھول پاؤں۔

جی ہاں! ویسے تو میں اسلام آباد میں کھڑی تھی لیکن میں نے خود کو برطانیہ میں پایا جہاں میں روی کے ساتھ ایک احتجاج کو کور کررہی تھی۔ ایسا ورچوئل ریئلٹی کی بدولت ممکن ہوا۔ میں نے ورچوئل رئیلٹی کا نام سنا تھا لیکن مجھے عملی طور پر اس کو استعمال کرنے کا موقع کبھی نہیں ملا تھا۔ یہ موقع مجھے چند روز قبل تب ملا جب ہیڈ سیٹ کی جانب سے صحافیوں کے لیے منعقدہ ایک ٹریننگ کا حصہ بنی۔

ٹریننگ میں نہ صرف ہمیں ورچوئل رئیلٹی جیسی جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کا موقع ملا بلکہ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ صحافی کوریج کے دوران خود کو کس طرح محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ ساتھ میں ہمیں فرسٹ ایڈ کی تربیت بھی دی گئی جس میں نہ صرف ہمیں سکھایا گیا بلکہ ان تمام چیزوں کی ہم نے عملی مشق بھی کی۔

 

ورچوئل رئیلیٹی کی عملی مشقیں

ٹریننگ میں ہمیں ورچوئل ریئلٹی کے ذریعے دکھانے کی کوشش کی گئی کہ صحافی کس طرح خطرات میں خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں اور جب دوران کوریج انکو کوئی حادثہ پیش آئے تو وہ کس طرح خود کو اور اپنی ٹیم کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ پہلا سیناریو ہمیں یوکے کا دکھایا گیا جہاں روی ایک احتجاج کو کور کررہا تھا لیکن وہ مینٹلی وہاں موجود نہیں تھا، روی پر کام کا سٹریس بہت زیادہ تھا وہ بہت تھک چکا تھا لیکن اس میں یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنے ایڈیٹر کو بول دے کہ اسے آرام کی ضرورت ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روی مسلسل فون میں مصروف تھا، اس کو اپنے ارد گرد خطرات کا پتہ نہ چلا اور یوں اس کو مظاہرین نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ ایسے واقعات اکثر ہمارے ملک میں بھی صحافیوں کے ساتھ ہوتے ہیں وہ جب رپورٹنگ کے لیے جاتے ہیں تو پہلے سے تیاری کرکے نہیں جاتے اور یوں اکثر اوقات اپنا نقصان کربیٹھتے ہیں۔

دوسرا سیناریو ہمیں ایکسٹریم ویدر کا دکھایا گیا جس میں صحافیوں کی ایک ٹیم سیلاب سے متاثہ ایک علاقے میں جاتی ہے۔ اس میں ہمیں یہ سکھانے کی کوشش کی گئی کہ اگر کسی صحافی کو قدرتی آفات یا اس جیسے موضوع پر بھیجا جائے تو وہاں اس کو کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ وہ کس طرح اپنی اور اپنی ٹیم کی حفاظت کرسکتا ہے۔ کس طرح صحافی پہلے اپنی اور پھر اپنی ٹیم کی جان کا خیال رکھ سکتے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ صحافی ورچول رئیلٹی کے ذریعے زیادہ آسانی سے ان چیزوں کو سمجھ سکتے ہیں اور سارے صحافیوں کو اس طرح کی ٹریننگ ملنی چاہئے۔ ایک اہم موضوع ڈیجیٹل سکیورٹی کا بھی ورچوئل رئیلٹی کے ذریعے سکھایا گیا کہ صحافی کہاں پر غلطی کرتے ہیں اور اس کا انکو کتنا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

آجکل کے دور میں فزیکل سے زیادہ ڈیجیٹک سکیورٹی زیادہ ضروری ہے کیونکہ ڈیجیٹل کے ذریعے ہی لوگ آپ کو ٹریپ کرسکتے ہیں۔ ہمیں دکھایا گیا کہ کس طرح ایک رپورٹر جو حساس موضوع پر کام کررہی تھی اس کو پولیس نے پکڑ لیا۔ ساتھ میں ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ ڈیجیٹل دور میں صحافیوں کو کن کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے جب وہ کہیں حساس موضوع پر رپورٹنگ کررہے ہو۔ آجکل یہ بہت ضروری ہوگیا کہ کیونکہ صحافیوں کو اٹھالیا جاتا ہے اور کئی کئی دنوں تک انکے گھر والے اذیت میں گزار دیتے ہیں۔

 

صحافیوں کی جان خبر سے زیادہ قیمتی ہے

خیر اب آتے ہیں ٹریننگ کی جانب جس میں صحافیوں بتایا گیا کہ ان کی جان خبر سے زیادہ قیمتی ہے۔ صحافیوں کو سکھایا گیا کہ وہ سٹوری کرنے سے پہلے کس طرح خطرات کو کم سے کم کر سکتے ہیں اور اچھی رپورٹ بنا سکتے ہیں۔

ہم صحافی اکثر اوقات بم بلاسٹ، حادثات، آتش زدگی اور جرائم کو کور کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری ذہنی صحت کافی زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ ٹریننگ میں ہمیں بتایا گیا کہ جب ہماری ذہنی صحت متاثر ہو تو ہمیں اس کے لیے کیا کرنا چاہئے۔ ٹرینرز نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت کا علاج بھی ضروری ہوتا ہے اور صحافیوں کو اس جانب زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہم صحافی اکثر اوقات کام میں بریک بھی نہیں لیتے اور باس کو ناں نہیں کہہ سکتے حالانکہ مسلسل کام کرتے ہوئے ہم تھک جاتے ہیں۔ تو ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ جتنا کام انسانی جسم کر سکتا ہے اتنا ہی کرنا چاہئے اور ناں کہنے کی عادت ڈالنی چایئے اگرچہ ہم میں ناں کہنے کی جرات ہوتی ہے نہ ہی ہم ناں کہنا چاہتے ہیں لیکن بعض مواقعوں پر ناں کہنا ضروری ہو جاتا ہے۔

  

فرسٹ ایڈ میں کیا کیا سیکھا

ٹریننگ کے دوران ہمیں فرسٹ ایڈ کی تربیت بھی دی گئی۔ خون کو کیسے روکا جا سکتا ہے اور اس کی کون کون سی قسمیں ہوتی ہیں اور ایک زخمی انسان کی جان کس طرح بچائی جا سکتی ہے، یہ سب ہمیں بہت تفصیل سے بتایا گیا۔ جب کسی کی سانس بند ہوجائے تو اس کو کس طرح معلوم کرنا اور کیسے اس کی سانس کو بحال کرنا ہوتا ہے۔

اگر ایک بچے کی سانس بند ہوجائے تو اس کو کس طرح کمپریشن دینے ہیں اس کا طریقہ کیا ہے، جب کوئی بے ہوش پڑا ہو اور سانس لے رہا ہو تو اس کی سانس کو بحال رکھنے کے لیے کیا طریقہ کار ہے، جب کوئی ڈوب جائے پانی میں تو تب کیا کرنا چاہئے، اگر بجلی کا کرنٹ لگ جائے تو تب کیا کرنا چاہئے، اگر کسی کو دل کا دورہ پڑ جائے ایسی صورتحال میں کیا کرنا چاہئے، اگر صحافی فیلڈ میں زخمی ہوجائے اس دوران کیا کرنا چاہئے، سانپ یا کوئی اور زہریلی چیز کھالے تو اس دوران کیا کرنا چاہئے یہ سب ہمیں سکھایا گیا۔

ایک نئی چیز جو اس ٹریننگ میں، میں نے سیکھی وہ تھی کہ جب باہر کے صحافی یا کوئی ٹیم آتی ہے تو ہم کس طرح ان کی سیکیورٹی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اکثر اوقات باہر ممالک کے صحافی پاکستان کو وزٹ کرتے ہیں جہاں ان کو لوکل صحافی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ان کو تجربہ نہیں ہوتا کہ وہ کس طرح ان کی سیکیورٹی یقینی بنا سکتے ہیں۔ نیز کون کون سی چیزیں ساتھ رکھنا ضروری ہیں، یہ بھی ہمیں بتایا گیا۔ یہ میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا جو مجھے بہت اچھا لگا۔

بطور صحافی میں نے اس ٹریننگ سے بہت نئی چیزیں سیکھیں جو اس سے پہلے میں نے کبھی نہیں سیکھی تھیں۔ تو جناب! میں نے اب یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ ان چیزوں کو عملی کام میں بروئے کار لانے، اور ان کی مدد سے اپنے کام کو بہتر سے بہتر بنانے کی بھرپور کوشش کروں گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button