"میری تو سفید داڑھی ہے میں نے کچھ نہیں کیا”
مہرین خالد
ہمارے معاشرے میں خواتین کی عزت آبرو اور وقار کی باتیں تو بہت کی جاتیں ہیں لیکن اگر اکیلی خاتون مل جائے تو اس کو غنیمت سے کم نہیں سمجھا جاتا۔
کچھ دن پہلے لاہور سے واپس آرہی تھی، ٹکٹ لے کر بس میں بیٹھی تھوڑی دیر بعد ایک اور خاتون بھی آکر میرے ساتھ بیٹھ گئی۔ ابھی بس روانہ ہونے میں کچھ ٹائم تھا کہ ایک بزرگ چچا بس میں چڑھے جن کی عمر تقریباً 75 سال کے قریب ہوگی جو کہ ایک پاؤں سے بھی معذور تھے۔ چچا بس میں چڑھتے ہی اپنی سیٹ کی تلاش میں اِدھر اُدھر نظر گمانے لگے کہ ہمارے ساتھ سیدھے ہاتھ کے ساتھ دو سیٹوں میں سے ایک سیٹ پر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد جب بس روانہ ہوئی تو چچا کی نظریں ہم دو خواتین پہ جم گئیں۔ ان کی نظروں سے ایک عجیب قسم کی وحشت ہورہی تھی اور منفی وائیبز آرہے تھے خیر اس سب کو نظر انداز کرنے کے لیے اپنا رخ کھڑکی کی طرف موڑا۔
جب ہم میانوالی پہنچے تو میرے ساتھ بیٹھی خاتون اترتے ہوئے کہنے لگی اچھا میرا سٹاپ آگیا اترتی ہوں اپنا خیال رکھنا۔ اس کے اترتے ہی چچا بھی اپنے سیٹ سے اٹھے اور میرے پیچھے سیٹ پر آکر بیٹھ گئے چونکہ وہ سیٹ بھی خالی ہوگئی تھی۔ ان کی یہ حرکت کچھ ناگوار گزری اور میں بھی چاک و چوبند ہوکے بیٹھ گئی۔ بس کے کچھ دیر چلنے کے بعد کھڑکی کی طرف سے چچا کا ہاتھ اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا جس پر سیدھا آٹھ کر ایک زوردار آواز میں چچا سے کہا ” چچا یہ کیا حرکت ہے؟ جس پر بس میں بیٹھے تمام مسافر اور بس ہوسٹس بھی متوجہ ہوئیں۔
جی تو چاہ رہا تھا کہ سیلف ڈیفنس کی صورت میں چچا کے سر میں گولی اتار دوں تاکہ دوبارہ کسی خاتون کی طرف ہاتھ بڑھانے کی ہمت ہی نہ رہے ان میں لیکن یہ شاید ان کی زندگی کا آخری بار ہوگا ایسی حرکت کرنے کا۔ میں نے بھی بس میں بیٹھے تمام مسافروں کو چلاتے ہوئے کہا کہ یہ چچا جو عمر کے اس حصے میں بھی ایسی حرکتیں کرتے ہیں ناجانے کتنی خواتین کو حوس کا نشانہ بنایا ہوگا لیکن اس بار ان کا نشانہ غلط جگہ پہ لگا ہے اگر کبھی کسی خاتون کو چھیڑنے کا دل چاہے تو سب اس دن سے عبرت حاصل کرنا کہ ساری خواتین خاموش نہیں ہوتیں۔
چچا نے بہت سی کے عزت کو چھیڑا ہوگا لیکن آج سب کے سامنے چچا کی خود کی عزت کا جنازہ نکلا ہے مجھ سے نہ سہی نہ خود سے لیکن اپنی سفید داڑھی کا ہی بھرم رکھ لیتے جس پر بس ہوسٹس نے چچا سے کہا کچھ تو اپنی عمر کا لحاظ کیا ہوتا لیکن چچا جو اپنی حرکت پر ذرا بھر بھی شرمندہ دکھائی نہیں دے رہے تھے کہنے لگے "میری تو سفید داڑھی ہے میں نے کچھ نہیں کیا” ان کی یہ بات سن کر میں نے بھی کہا کہ اپنی حرکتیں چھپانے کے لیے داڑھی کا سہارا مت لیں یہ داڑھی کی بے حرمتی ہے کہ آپ جیسا شیطان نما انسان بھی داڑھی رکھتا ہے۔
آج کے لیے اتنی عزت آپکی کافی ہے اور اپنی سیٹ تبدیل کرکے آگے بیٹھ گئی "میری تو سفید داڑھی ہے ” انکی یہ بات سارے راستے میرے ذہن میں چل رہی تھی اور کہی پہ پڑھی یہ بات یاد آرہی تھی کہ "مرد اپنے گناہ چھپانے کے لیے داڑھی تو رکھ لیتا ہے عورت تو داڑھی بھی نہیں رکھ سکتی” لیکن یہ بات کبھی مجھے سمجھ ہی نہیں آئی تھی کہ اسکا مفہوم کیا ہوسکتا ہے چونکہ داڑھی تو سنت ہے اور چہرے کی نورانیت میں مزید اضافہ کرتا ہے اور یہ تو مردوں کے لیے ہے بھلا عورتوں کے لیے تھوڑی ہے۔
اس دن میں اس بات کا مکمل مفہوم سمجھ گئی جب چچا کی حرکت اور اسکی داڑھی والی بات میں فرق واضح ہوا۔
ہمارے معاشرے کا یہ ایک بہت بڑا المیہ کے کہ اگر کسی کی داڑھی ہے تو وہ نیک و صالح ہوتا ہے پھر چاہے وہ کتنا بڑا درندہ ہی کیوں نہ ہو لیکن اگر کسی کی داڑھی نہیں تو وہ گناہ گار بھی ہے اور چاہے کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو وہ اچھائی کسی کام کی نہیں۔
پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کو ہراساں کرنا آج کل معمول بن گیا ہے خواتین کے ساتھ یہ زیادتی میں خود کئی بار اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی ہوں جہاں پر وہ اپنی بے بسی کے آنسوں تو بہا دیتی ہیں لیکن یہ حوصلہ رکھنے کی ہمت نہیں ہوتی کہ اپنی جسم کو لگنے والے غلیظ ہاتھوں کو کاٹ ڈالے لیکن ان میں یہ ہمت آئے گی بھی تو کیسے جب یہ زیادتی ان کی عزت سے جوڑی جاتی ہے اور پہلا سوال ہی یہی اٹھایا جاتا ہے کہ یہ خاتون ہی ٹھیک نہیں اسی نے موقع دیا ہوگا ورنہ مرد کی اتنی مجال کہ کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے۔
ہمارے ہاں ذیادتی ہونے پر اسی بات سے متاثرہ شخص کو چپ کروایا جاتا ہے کہ اگر کسی کو پتہ چلا تو تم میں ہی کھوٹ نکالیں گے طرح طرح کی باتیں ہوں گی اور اگر کنوراے/ کنواری ہو تو شادی تو بھول ہی جاؤ کیونکہ معاشرے میں زیادتی کرنے والے کو تو تسلیم کیا جاتا ہے لیکن زیادتی سہنے والے کو داغ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔
میرے ساتھ پیش آنے والا یہ دوسرا واقعہ تھا اس سے پہلے اسی نوعیت کا معاملہ جس کی باقاعدہ رپورٹ میں اپنے شہر کے پولیس اسٹیشن میں درج کروا چکی ہوں جس کو تین ماہ پورے ہونے کو ہے لیکن ابھی تک اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا البتہ مزید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا کہ خواتین کانسٹیبل پولیس اسٹیشن میں نہ ہونے کی صورت میں خواتین کو کن کن رویوں کو جھیلنا پڑتا ہے۔ میں جب اپنی رپورٹ درج کروانے گئی تو ایس ایچ او صاحب تو تھے ہی نہیں البتہ محرر کہنے لگے ” جی میری جان آپ اپنا معاملہ بتائیں”
یہ سن کر محرر کی طرف دیکھا کیا آپ آنے والی تمام خواتین سے اسی انداز میں بات کرتے ہیں ؟ یا آپ کے گفتگو کا طریقہ ہی یہی ہے جس پر محرر انسانیت کی حدود میں داخل ہوکر معذرت کرنے لگے اور شاباشی کے پھول باندھنے لگے کہ خواتین کو ایسے ہی مضبوط بن کر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے لیکن میں جسے گھر ، دوستوں اور ہر طرف سے سپورٹ حاصل ہے اگر مجھے ان سب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو ان خواتین کا کیا جنھیں کسی بھی قسم کی سپورٹ حاصل نہیں ہوتی تب ہی خواتین اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر خاموش رہتی ہیں۔
لیکن یہ معاملات خاموش رہنے کے نہیں بلکہ اس انسان کو نوچ لینے کے ہوتے ہے جو اپنی حدود سے نکل کر ہراساں کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس نوچنے کے لیے ہماری خواتین کو سیلف ڈیفنس کی تربیت کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کو معلوم ہو کہ ایسی صورتحال میں اپنی حفاظت کیسے کرنی ہے۔
کیا آپ نے کبھی ایسی صورت حال کا سامنا کیا ہے ؟