‘بیٹی کو سالوں بعد بیاہیں گے تو آج ہی کیوں نہیں؟’
سدرا آیان
غلطیاں انسانوں سے ہوتی ہے، خاص کر عورتوں سے، شائد ان میں شعور کی کمی ہوتی ہے یا ان کے شعور کو کبھی نکھرنے ہی نہیں دیا جاتا، ہمارے ہاں لڑکیاں جو خاص دو غلطیاں کرتی ہیں ان میں سے ایک یا وہ کم عمری میں شادی کرلیتی ہے یا تب شادی کرتی ہے جب ان کی عمر شادی کرنے سے زیادہ ہو۔
شادی کے بعد کچھ کم عمر او ادھیڑ عمر لڑکیوں کے نصیب اچھے ہوتے ہیں اور ان کے گھر بس جاتے ہیں لیکن کچھ لڑکیوں کو پنوتی کہتے ہیں کیونکہ یا تو کم عمری میں شادی کے بعد وہ اپنا گھر بسا نہیں پاتی اور یا ادھیڑ عمر میں شادی کرنے کی وجہ سے ان کے گھر بستے بستے بکھر جاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں لوگوں کو کم عمر بہو چاہیے ہوتی ہے تاکہ قابو میں رہے اور کچھ والدین کم عمری میں ہی اپنی بیٹیوں کو بیاہ کر دیتے ہیں کہ ویسے بھی پرائے گھر کی ہی ہے سالوں بعد بیاہیں گے تو آج ہی کیوں نہیں؟ اور کچھ کے رشتے نہ بھی آرہے ہوں تو گھر میں بٹھا کر رکھا جاتا ہے کہ جب تک رشتہ نہ ہو تب تک گھر میں بیٹھ کر انتظار کرنا، پھر یہ زیادہ عمر والی لڑکیاں ان لوگوں کو چاہیے ہوتی ہے کہ جی میرا بیٹے کی پہلی شادی کامیاب نہ ہوئی اب دوسری لڑکی ڈھونڈ رہے ہیں اگر عمر میں تھوڑی بڑی ہو تو زیادہ اچھا رہے گا (تاکہ عمر بھر تھانے دے دے کر اسکا منہ بند کریں) لیکن کم عمر اور بڑی عمر دونوں قسم کے لڑکیوں کے والدین یہ نہیں سوچتے کہ پہلے اس کی تعلیم پوری ہو تب شادی کے لیے دیکھا جائے گا یا بیٹی کی عمر نکل رہی ہے تو کیوں نہ پڑھا لکھا کر اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے۔
یہی غلطی نکل آتی ہے کچھ والدین کی کہ بیٹی کو پرایا سمجھ کر اسے پڑھانے کے بجائے بیاہ کر دیتے ہیں۔
کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ مرد کے لیے دوسری شادی کرنا یا پہلی والی کو چھوڑ کر دوسری کر لینا کیوں آسان ہے؟ کیوںکہ اسے آسانی سے کہی بھی کوئی بھی لڑکی مل جاتی ہے، یہ غلطی ان والدین کی ہوتی ہیں جو اپنی بیٹی کو پڑھاتے اس لیے نہیں ہے کہ ویسے بھی پرائے گھر جانا ہے اس نے، پھر کوئی بھی رشتہ آئے ہاں کر دیتے ہیں۔ اگر ہر والدین اپنی بیٹیوں کو پڑھائے لکھائے اور ایک مقام تک پہنچائے تو ایسے ویسے مرد کی جرات نہیں ہوگی کہ وہ رشتہ بھیجے یا شادی کے بعد طلاق کا سوچے، مرد عورت کے خلاف قدم تب اٹھاتا ہے جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کمزور ہے، بے شعور ہے، سمجھتی نہیں ہے، بات نہیں کر سکتی، بے ہمت ہے ! جہیز میں اگر ڈھیر سارے برتنوں کی جگہ لڑکی کو ڈگری، اخلاقیات، اصول، ہمت، اعتماد اور سپورٹ دیا جائے تو وہ کبھی ناراض ہوکر یا طلاق لے کر میکے لوٹ کر نہیں آئے گی۔
کچھ مرد حضرات کو لگتا ہے کہ وہ حسین ہے یا اس کے پاس سرکاری نوکری ہے یا بزنس ہے تو وہ چاہے دنیا کے کسی بھی عورت سے شادی کر سکتا ہے اور ہمارے معاشرے میں تو ہر دوسری عورت اسے مل سکتی ہے۔ اس میں غلطی مرد کی نہیں بلکہ ان والدین کی ہے جو آنکھیں بند کرکے بیٹی دوسرے پیسے والے جانور کو یہ کہہ کر دے دیتا ہے کہ بیٹا پڑھا لکھا اتنا نہیں ہے لیکن کماتا اچھا ہے۔
اگر ہم اپنی بیٹیوں کو پڑھائے لکھائے اور ان سے کہے کہ اپنے لیے ایک مرد کو چنے تو یہ غلط نہیں ہوگا کیونکہ آج کل کے انسانی شکل میں چھپے جانور کو ہمارے معصوم اور سادہ بزرگ نہیں جانتے بلکہ آج کل کے جنریشن ہی ایک دوسرے کو اچھی طرح سے جانتے ہیں۔
اگر ہم اپنی بیٹیوں کو پڑھائے لکھائے ان کو ہمت دیں، ان کو شعور دیں تو وہ اچھے سے اپنا گھر چلا پائے گی اور مرد کی ہمت نہیں ہوگی اس کے احساسات کے ساتھ کھیلنے کی، ان کو گالم گلوچ دینے کی اسے تھانے مارنے کی۔ اگر ہم اپنی بیٹیوں کو ہمیشہ آباد دیکھنا چاہتے ہیں تو اسے بااختیار بنانا ہوگا ورنہ سیکڑوں ادارے خواتین کے حقوق پر کام کرتے ہوئے بھی ناکام رہیں گے۔
نوٹ: بلاگر کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔