بی بی جس منزل پر پہنچنا چاہ رہی تھی اس کا ہی ان کو علم نہ تھا
سندس بہروز
کچھ دن پہلے میں رکشے میں کہیں جانے کے لیے بیٹھی۔ رکشے میں پہلے ہی سے ایک خاتون 2 بچوں کے ساتھ سوار تھی۔ اس کے بچے اپنی ماں سے مختلف چھوٹے چھوٹے سوال کر رہے تھے مثلا یہ دریا کہاں جاتا ہے؟ یہ کون سی جگہ ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ ساتھ ہی ساتھ وہ حیران ہو کر اپنی امی کو مختلف چیزیں بھی دکھا رہے تھے مثلا کشتی کو دیکھ کر وہ زور سے چلائے امی! وہ دیکھیں کشتی۔ اس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ بچے کبھی گھر سے باہر نہیں نکلے۔ ان کے لئے تو جیسے رکشے میں سفر کرنا بھی کسی پارک میں جھولا جھولنے سے کم نہیں تھا۔ بچوں کا ندیدہ پن تو ایک طرف ان کی ماں کی معصومیت نے بھی مجھے حیران کر دیا۔
ایک جگہ پہنچ کر جب ڈرائیور رکا تو اس خاتون نے پوچھا کہ کیا یہ میرا سٹاپ ہے؟ جس پر ڈرائیور نے کہا نہیں۔ یعنی بی بی جس منزل پر پہنچنا چاہ رہی تھی اس کا ہی ان کو علم نہ تھا۔ جب ہم نے تھوڑا سا اور سفر کیا تو اس خاتون نے مجھ سے پوچھا باجی مجھے فلاں اسٹاپ پر اترنا ہے وہ کب پہنچے گا؟ میں نے کہا وہ تو گزر گیا۔ وہ پریشان ہو کر کہنے لگی کہ میں نے تو رکشے والے کو اسی سٹاپ کا بتایا تھا۔ میں نے غصے سے رکشے والے کو روکنے کا کہا اور خاتون کو ان کی منزل کا رستہ سمجھایا۔ رکشے والے نے زیادہ پیسوں کی لالچ میں ان کو ان کی منزل پر نہیں اتارا۔
میں سوچ میں پڑ گئی جب اس خاتون نے مجھے بتایا کہ ان کا شوہر تبلیغ پر گیا ہوا ہے وہ کبھی گھر سے باہر نہیں نکلی اب جبکہ وہ اپنے کچھ رشتے داروں کے گھر ضروری کام سے جارہی ہے تو اس کو راستے کی سمجھ نہیں۔ بس گھر والوں نے اس کو یہ پتہ دے کر بھجوا دیا اور مجھ پاگل کو لگتا تھا کہ اب ایسی عورتیں نہیں پائی جاتی۔
مجھے افسوس ہوا کہ اکیسویں صدی کے اس جدید دور میں بھی ہماری سوچ پسماندہ ہے اور اس پسماندگی کی بھینٹ زیادہ تر عورتیں ہی چڑھتی ہے۔ عورت کو محفوظ رکھنے کی خاطر ہم اس کو چار دیواری میں بند کر دیتے ہیں اس بات سے بے نیاز ہو کر کہ اگر کل کو اس کی زندگی میں اس کا باپ، بھائی، شوہر یا بیٹا نہیں رہا تو وہ ایک ایسے معاشرے میں کیسے جئے گی جہاں قدم قدم پر لوگ اس کی معصومیت سے فائدہ اٹھائیں گے۔ بلی کے آنے سے کبوتر کا آنکھیں بند کرنا تو کبھی مسئلہ کا حل نہیں رہا۔ کبوتر کو پرواز آنی چاہیے۔ یہ حل شاید عورت کی حفاظت کا بھی ہے۔ کب تک اس کی حفاظت کے لیے اس کے ساتھ کسی نہ کسی مرد کا ہونا ضروری سمجھا جائے گا۔ آخر کب وہ وہ اتنا ایکسپوژر حاصل کرے گی کہ وہ دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینا سیکھ سکے اور اتنی بہادر بن سکے کہ اس کو اپنی حفاظت کے لیے کسی سہارے کی ضرورت نہ پڑے۔
یہاں غور طلب بات یہ بھی ہے کہ جیسے ان کی ماں معصوم تھی ویسے ہی بچے بھی معصوم تھے۔ ان کی پرورش بھی جدید دور کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہو رہی تھی۔ وہ بہت سی ایسی چیزوں سے ناآشنا تھے جن سے ان کا روشناس ہونا بہت ضروری تھا۔ ہمیشہ سے ہم یہی سنتے آرہے ہیں کہ بچے کی پہلی درسگاہ اس کی ماں ہوتی ہے تو اگر ماں کچھ نہ جانتی ہوں ہو تو وہ اپنے بچوں کو اس دور کے مطابق کیسے تیار کرے گی۔
ترقی یافتہ ممالک کے صفوں میں شامل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کی تربیت جدید دور کے مطابق ہو اور اس کے لئے ایک بہادر سر اور با شعور ماں کا ہونا بہت ضروری ہے۔
سندس بہروز انگلش لٹریچر میں ایم فل کر رہی ہے اور سماجی موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہے۔