بلاگزسیاست

پاکستان میں سیاسی عدم استحکام، ذمہ دار کون ہے؟

سعیدہ سلارزئی

گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام کا براہ راست تعلق سیاسی جماعتوں کی کھینچا تانی سے ہے کیونکہ حمکران وقت سمجھتے ہیں کہ وہ صحیح اور اپوزیشن غلط جبکہ اپوزیشن کا ماننا ہوتا ہے وہ صحیح ہے اور کرسی پر براجمان حکومت کو غلط ثابت کرنے کے تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔

پاکستان کے برعکس دنیا کے دیگر ممالک میں بھی سیاسی جماعتوں کے درمیان نوک جھوک ہوتی رہتی ہیں تاہم اس کے باوجود ان ممالک کا معیشت آگے بڑھتا ہے اور ادارے ہر حال میں اپنا کام جاری رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن ہمارے ملک کی سیاست اور اداروں کے کام کرنے کی صورتحال مختلف ہے۔

ہمارے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہوسکتی ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی ورکرز کی تربیت ایسی کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذاتی پسند نا پسند کی بناء پر فیصلے کرتے ہیں اور اتنا حوصلہ نہیں رکھتے کہ اپنی صفوں میں غلطی پر ویسے ہی آواز بلند کرسکیں جیسے وہ مخالف صفوں پر  تنقید کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی ورکرز کی تربیت نہیں کی جاتی اور وہ ملک کی سیاست میں صحیح طور پر اپنا کردار ادا نہیں کرتے۔

75 سال ہونے کے باجود بھی پاکستانی سیاست میں کوئی جدت نظر نہیں آیا بلکہ مجھے تو حالات پہلے سے بھی خراب دکھائی دے رہے ہیں اب آپ بتائیں ایسے حالات میں ایک ملک کیسے ترقی کرے گا، وہاں کیسے خوشحالی آئے گی اور وہ کے عوام کس طرح بغیر کسی مشکلات کے زندگی بسر کریں گے؟

اب تو بچہ بچہ بھی جان چکا ہے کہ ایک طویل عرصہ سے ملک کو غیر آئینی طریقے سے چلایا جارہا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آج تک کسی بھی منتخب وزیراعظم کو اپنی مدت پوری کرنے نہیں دی گئی، سیاسی جماعتوں کو مختلف طریقوں سے کمروز کیا جارہا ہے جبکہ اب یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی جس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ 75 سال بعد بھی ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہیں ہوسکا۔

حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جو بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آتی ہے وہ وہی سب دہراتی ہے جس پر وہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے روزانہ تنقید کرتے تھے، جن افعال کو سارے ملک کے مسائل کی جڑ سمجھا جاتا تھا اور ہمیں لگتا تھا کہ اب اس پارٹی نے وطن عزیر کے تمام مسائل کی تشخیص کرلی ہے بدقسمتی سے ایسا کچھ نہیں ہوا۔

ملک اس وقت سیاسی و معاشی بحران کا اس قدر شکار ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ہز چیز مہنگی ہوگئی ہے جبکہ مہنگائی کہ وجہ سے غریب اور لاچار عوام رونے پر مجبور ہوچکے ہیں لیکن افسوس اس سب کے باوجود سیاستدانوں کو ملک کی فکر نہیں ہے اور سب اپنے فائدے کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ آخر کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا، کب تک لاچارعوام کی تقدیر سے کھیلا جائے گا، کتنے وزراء اعظم کو گولیاں کھانی پڑی، کتنے وزرا اعظم کو بے آبرو کرکے ملک بدر کیا گیا؟

حکومت اور عوام کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جمہوریت میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا اور نہ ہی جمہوریت کا انتخابات کے ذریعے راتوں رات نفاذ کیا جاسکتا ہے۔

ملک میں 90 روز کے اندر انتخابات کروانا آئینی تقاضا ہے لیکن اس صورتحال میں ایسے ہونا ممکن نہیں تاہم یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ پاکستان میں اقتصادی و سیاسی بحراب کا واحد حل صاف اور شفاف انتخابات کا انقعاد ہے۔

اب بھی وقت ہے کہ سیاستدان آئین کے مطابق معاہدہ کریں، شفا انتخابات کو بروقت یقینی بنایا جائے اور انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرکے آگے بڑھنا چاہئے۔ اگر ملک کی تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر کام کرلیں تو سیاسی عدم استحکام کے لیے راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button