جب میٹرک کی طالبہ کے جواب نے مجھے حیران کردیا
سندس بہروز
پرسوں میں اپنی باجی کے گھر گئی تو ہمیشہ کی طرح ان کا گھر سلیقے سے سجایا گیا تھا۔ میں ہر ایک چیز کی طرف تعریفی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی کہ اچانک میری نظر میز کے نیچے سلیقے سے سجائے گئے پالش کیے ہوئے جوتوں پر پڑی۔ میں نے ان کی بیٹی جو کہ میٹرک کی طالبہ ہے، سے پوچھا کہ یہ کس نے صاف کیے ہیں۔ "بابا نے” سن کر میں حیران ہو گئی۔ اور تو اور اس نے مجھے بتایا کہ اس کے ساتھ بستہ بھی گاڑی تک بابا لے کر جاتے ہیں اور اس کی چھوٹے بہن بھائیوں کی کتابوں اور کاپیوں کا خیال امی رکھتی ہے۔ یہ سب چیزیں میرے لیے حیران کن تھی کیونکہ ہم اپنے لیے یہ سب بچپن ہی سے کرتے ارہے تھے۔
اب مجھے باجی کی ان شکایتوں کی سمجھ ائی جو ان کو اپنے بچوں سے تھی۔ وہ اکثر اپنے بچوں کی غیر ذمہ داری سے سر پیٹتی۔ ان میں سلیقے کی کمی کا شکوہ کرتی اور ان کی سستی سے تو جیسے ان کو تپ چڑھ جاتی۔ میرا جی چاہا کہ میں ان سے پوچھوں کہ اگر ان کے یونیفارم اب تک آپ استری کرتی ہیں، ان کے جوتے آپ صاف کرتی ہے اور ان کے بستے میں کتابیں آپ رکھتی ہے تو کیا وہ بچے خاک کام کریں گے۔ مگر کیا اس سب میں قصور ان کے بچوں کا ہے؟ کیا اپ کو نہیں لگتا کہ ان کی سستی کے ذمہ دار ان کے والدین ہیں؟
یہ اج کل ایک فیشن بنا ہوا ہے۔ میں نے اکثر والدین کو اپنی پانچ سے چھ سال کے عمر کے بچوں کو نوالے بنا بنا کر منہ میں کھلاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اسی سے ہی بچوں میں کھانے کا رجحان کم ہو جاتا ہے اور اس کا گلا بھی اج کل ہر ماں کی زبان پر ہے کہ اس کے بچے کھانا نہیں کھاتے۔ اور اگر بچہ نہیں کھا رہا تو اس کو موبائل تھما دیتے ہیں اور پھر وہ کارٹون دیکھتے دیکھتے کھانا کھاتے ہیں۔
ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام اگر والدین اپنے بچوں کا کریں گے تو وہ خود کیا سیکھیں گے اور کب سیکھیں گے؟ میں مانتی ہوں کہ محبت میں سرشار والدین اپنے بچوں کو ہر سہولت دینا چاہتے ہیں مگر یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ ان کی دی گئی سہولتیں ان کی بچوں کو کس طرف لے کر جا رہی ہے۔ اس کا نقصان صرف یہ نہیں ہے کہ بچے غیر ذمہ دار ہو رہے ہیں بلکہ اس کی وجہ سے ایک بہت بڑا خلا ان کی شخصیت میں انحصار کی صورت میں ا جاتا ہے۔ بچہ ہر ایک چیز میں اپنے والدین پر منحصر ہوتا ہے اور وہ چھوٹے سے چھوٹا کام بھی خود نہیں کر سکتا۔ جب یہی بچے جوان ہو جاتے ہیں اور ان کے خود کام کرنے کی باری اتی ہے تو وہ کر نہیں پاتے اور زندگی کے مختلف مراحل میں وہ ناکام ہو جاتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ ڈپریشن اور انزائٹی جیسی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ دنیا ایک اچھی جگہ ہے مگر سست انسانوں کو وہ کم ہی برداشت کرتی ہیں اور اپنے بچوں کو خود پر اتنا منحصر کر کے ہم ان کو کاہل ہی تو بنا رہے ہیں جو کہ نہ کام کے رہیں گے نہ کاج کے بس دشمن اناج کے۔
مجھے اج بھی یاد ہے کہ امی ہم سے چھوٹے چھوٹے کام کرواتی اور ہمیں ہرگز فارغ نہ رہنے دیتی۔ نہ ہی وہ اج کل کی ماؤں کی طرح یہ کہتی کہ باقی سب میں کر دوں گی بس تم اپنے سکول کا کام کرو۔ زندگی سکول سے شروع ہو کر سکول پر ختم نہیں ہو جاتی۔ سکول تو صرف شعور سیکھنے کا ایک ادارہ ہے۔ زندگی اس سے بڑھ کر ہے جہاں ہمیں اور بہت سے کام کرنے اور انے چاہیے۔
بچے نازک ٹہنی کی طرح ہوتے ہیں جس طرف موڑو مڑ جاتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے خودداری ان کی تربیت کا ایک اہم جز ہونا چاہیے جس سے وہ دوسروں پر کم انحصار کر سکیں۔ ان سے مختلف چھوٹے چھوٹے کام کروانے چاہیے تاکہ وہ سست نہ پڑیں اور زندگی کی بڑی ازمائشوں سے لڑنے کا حوصلہ رکھیں۔
کیا اپ کو بھی ایسا لگتا ہے؟
سندس بہروز انگریزی میں ماسٹرز کر رہی ہیں اور سماجی مسائل پر بلاگرز بھی لکھتی ہے۔