شدت پسندی کو ختم کرنے کے لیے بچوں کی ذہن سازی بہت ضروری ہے
سدرا آیان
کل ایک ورکشاپ میں شدت پسندی ، ٹیررزم اور نفرت انگیز مواد پر بات چیت ہورہی تھی۔ اس پر ہر بندے نے تقریباً ایک جیسا ہی تبصرہ کیا ، جیسے کہ ہم اگر معاشرے سے بد امنی ، تشدد ، اور شدت پسندی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس بات پر غور کرے کہ ہم اپنے بچوں کو کو سکھا کیا رہے ہیں۔ دوسرے بندے نے کہا کہ اگر ہم اپنے گھریلو ماحول کو ٹھیک کرے تو ہم معاشرے سے یہ ناپسندیدہ معاملات ختم کر سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم یونیورسٹیز اور کالجز میں آگاہی کیے مہم چلائے سیمینارز کروائے تو ہم اپنے نوجوان نسل کی سوچ میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔
ان سب کی باتوں سے میں اتفاق کرتی ہوں لیکن اگر ہم ہیٹ سپیچ کی مثال لیں یا شدت پسندی کی مثال لیں تو ان برائیوں نے ہمارے معاشرے میں بہت ہی مضبوطی سے اپنی جڑیں گاڑ دی ہیں۔
اگر ہم اسے ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو نوجوان نسل کو نہیں بلکہ بچوں کی ذہن سازی ایسے کرینگے کہ وہ امن پسندی کی طرف راغب ہو اور انکے نصاب میں ہمیں ایسے مضامین شامل کرنے ہونگے جس سے انھیں اپنی زندگی میں بھی کوئی فائدہ ہو۔
ہمارے نصاب میں بچوں کو پیاسا کوا رٹائے جاتے ہیں ، جیسے کوے کو پیاس لگی تھی اس نے پانی میں پتھر پھینکا پانی اوپر آیا اس نے پانی پیا اور نتیجہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔
بچہ گھنٹوں بیٹھ کر رٹہ لگاتا رہتا ہے لیکن اسے یہ نہیں معلوم کہ پیاسے کوے کی کہانی ہماری زندگی میں کہاں فٹ آتی ہے۔
اسے یہ نہیں پتہ ہوتا کہ اس کہانی کا مقصد کیا ہے ہم کس طرح تخلیقی سوچ سکتے ہیں اور کس طرح تخلیقی طریقوں سے اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کا حل ڈھونڈ سکتے ہیں۔
اسکے علاوہ انہیں جو سکھایا جاتا ہے وہ پیپر پاس کرنے کے علاؤہ کسی کام کا نہیں ہوتا کیوں کہ جو چیزیں انہیں سکھائی جاتی ہے وہ ہمارے ملک میں اور خاص کر ہمارے معاشرے میں تو کبھی ان بچوں کے کام نہیں آسکتی جیسے اگر ہم دیکھیں اکثر کتابوں میں پرانے زمانے کے سائنس دانوں کی تھیوریز ہوتی ہے جنکے نام ہمارے اساتذہ کو بھی یاد نہیں رہتے ان پرانے زمانے کے تھیوریز پڑھانے کی بجائے اگر موجودہ صورتحال میں کیسے سروائیو کیا جائے کیسے کامیاب ہوں کیسے آگے بڑھیں اور کچھ پریکٹلی کروایا جائے تو وہ زیادہ بہتر ہوگا۔
شائد بہت سے لوگ ایسے ہوں جنھیں تھیوریز سے اتنی ہی چڑ تھی جتنی مجھے تھی۔ تھیوریز پڑھ کر مارکس لے کر بندہ کون سے نوکری کرنے جائے ؟ ان تھیوریز کی بجائے اگر طلباء و طالبات کو انٹرپرینوشپ سکھایا جائے انھیں فری لانسنگ سکھائی جائے تو کیا یہ نوکری کے لیے در در ٹھوکر کھائے گے؟ اور پھر جب انھیں نوکری نہیں ملتی دردر ٹھوکریں کھاتے ہیں ان میں الگ قسم کا چڑ چڑاپن آجاتا ہے ہر کسی سے بات بات پر لڑنے لگتے ہیں اپنے والدین پر تنقید کرنے لگتے ہیں کہ انھیں کوئی ہنر کیوں نہیں سکھایا اسکے بجائے ، اپنے اساتذہ کو بری بھلا کہنے لگتے ہیں اپنے ملک اور اپنی حکومت کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں فلاں اینٹی سٹیٹ ہے وغیر وغیرہ۔
نصاب کے علاؤہ بھی اگر ہم خاص طور پر پرائمری سکولز کے کچھ اساتذہ کو دیکھ لیں تو وہ نصاب چاہے جتنا بھی اچھے مضامین پر شامل ہوں لیکن انھیں پڑھانے والے ان جیسے اساتذہ ہونگے تو بچے نہ کبھی کچھ سیکھ سکتے ہیں نہ تخلیقی سوچ کے مالک بن سکتے ہیں۔
ان سے چیزیں صرف رٹوائی جاتی ہیں ، انھیں یہ کبھی نہیں یہ سمجھایا جاتا کہ یہ چیزیں ہہماری اصل زندگی میں کیسے کام آتی ہیں دوسرا یہ کہ پڑھنا پڑھانا ایک طرف لیکن بچوں کے ساتھ جو رویہ اپنایا جاتا ہے انھیں انکے دوستوں اور کزنز کے سامنے ہوم ورک نہ کرنے پر مارتے ہیں مختلف سزائیں دی جاتی ہیں جس سے وہ بچہ ذہنی دباؤ اور احساس کمتری کا شکار بن جاتا ہے۔
بہت کم عمر سے وہ ناامیدی کا شکار ہو جاتا ہے اسکے دل میں خوف بیٹھ جاتا ہے وہ تخلیقی بننا تو دور وہ آگے لائن میں بیٹھنے سے بھی کتراتا ہے۔ اب اس عمر میں بچہ تو چپ چاپ سہتا ہے لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ سکول میں اساتذہ کا رویہ گھر میں بڑوں کا رویہ لاشعوری طور پر ان بچوں میں زہر بھرتا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید نیگیٹوٹی میں تبدیل ہوتا ہے۔
نہ تو پھر اسے اپنی عزت کا خیال ہوتا ہے نہ اساتذہ کا نہ کسی اور کا اور تبھی ہمیں سوشل میڈیا پر ایسے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں جو اپنے اساتذہ کا مذاق اڑاتے ہیں ، قانون کا مذاق اڑاتے ہیں ملک اور حکومت کا مذاق اڑاتے ہیں
اور نفرت انگیز مواد پھیلانے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔
اگر ہم اپنے معاشرے سے ایسے ناپسندیدہ افعال کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو نوجوان نسل سے زیادہ بچوں پر توجہ دینی ہوگی کیونکہ نوجوان نسل کی جو سوچ بچپن سے بنائی گئی ہے وہ مشکل ہے کہ بدل جائے اس لیے بچپن سے ہی بچوں کی اچھی ذہن سازی ہوں ۔ انھیں کیا پڑھایا جاتا ہے پر دھیان دینے کے ساتھ ساتھ انھیں کسطرح سکھایا جاتا ہے اور کوں سکھاتا ہے اس پر بھی توجہ دیں۔ شائد اس سے آنے والے وقت میں ہم اچھے شہری پیدا کرسکیں۔