بلاگزلائف سٹائل

گالیاں عورت ہی کو کیوں پڑتی ہے؟

   

سندس بہروز                          

پرسوں شام کے وقت موسم بہت اچھا تھا تو میں نے سوچا کیوں نہ باہر جا کر چہل قدمی کی جائے۔ باہر نکل کر میرا موڈ بہت اچھا ہو گیا۔ ہشاش طبیعت کے ساتھ پارک میں چہل قدمی کرنے لگی۔ چونکہ موسم بہت اچھا تھا تو بہت سارے لوگ باہر نکلے ہوئے تھے۔ پارک میں خوب چہل پہل تھی۔ بچے، بوڑھے، خواتین غرض کے ہر عمر کے لوگ پارک میں موجود تھے۔ بچوں کے کھیل کود نے پارک کو ایک رونق بخشی ہوئی تھی۔ ماحول میں عجیب سی خوشی تھی۔

میں چہل قدمی کرتے کرتے پارک کے ایک طرف بڑھ رہی تھی کہ اچانک دوسری طرف سے شور سنائی دینے لگا۔ میں شور کی جانب بڑھی۔ قریب پہنچنے پر میں نے دیکھا کہ دو بچے اپس میں لڑ رہے تھے۔ کچھ مرد حضرات ان کو چھڑوانے کی کوشش کر رہے تھے مگر وہ بہت ضدی بچے معلوم ہو رہے تھے، ایک دوسرے کے گریبانوں کو چھوڑہی نہیں رہے تھے۔  ارد گرد کے تقریبا سارے لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے تھے۔ جس چیز نے مجھے حیران ہونے کے ساتھ ساتھ افسردہ کیا وہ ان بچوں کے منہ سے نکلنے والے الفاظ تھے۔ وہ ایک دوسرے کو مارنے کے ساتھ ساتھ گالیاں بھی دے رہے تھے اور تعجب کی بات یہ تھی کہ لڑائی ان دو لڑکوں کی تھی اور گالیاں وہ ایک دوسرے کی ماں بہن کو دے رہے تھے۔ 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے چھوٹے بچوں نے ایسی گالیاں کہاں سے سیکھی۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان کے ماحول میں یہ چیز عام ہے تبھی تو وہ اتنے لوگوں کے سامنے ایسے نازیبا الفاظ استعمال کر رہے تھے۔ گالیاں ہر زبان اور ہر ثقافت میں پائی جاتی ہیں اور اس میں اکثر وہ الفاظ شامل ہوتے ہیں جن کا استعمال اس ثقافت اور معاشرے میں ممنوع ہوتا ہے۔ مثلا ہماری ثقافت میں گھر کی چار دیواری کے باہر عورت کا ذکر معیوب سمجھا جاتا ہے تو اس میں اکثر گالیاں عورت ہی کے حوالے سے دی جاتی ہیں۔

اسی طرح بعض ثقافتوں میں کسی کو جانوروں سے منسوب کرنا برا سمجھا جاتا ہے تو وہاں وہ الفاظ گالی بن جاتے ہیں۔ اور ایسے الفاظ کو عموما دوسرے کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے یہ دو بچے ایک دوسرے کو مار تو رہے تھے مگر ایک دوسرے کو زیادہ تکلیف دینے کے لیے وہ گالیوں کی مدد لے رہے تھے اور اس کے لیے وہ ایک دوسرے کی ماں بہن کو نشانہ بنا رہے تھے۔ یہ چیز ان بچوں نے اپنے بڑوں ہی سے سیکھی ہے۔

میں نے بہت سارے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ غصے کی حالت میں گالیاں دینے سے ان کو طمانیت محسوس ہوتی ہے اور ایسا صرف ہمارے معاشرے میں نہیں بلکہ دوسری ثقافتوں اور زبانوں میں بھی بیشتر ایسی ہی گالیاں ہیں جن کا نشانہ عورتیں بنی ہوئی ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ بحث مردوں کی ہے اور ان میں گالیوں کا نشانہ عورت بنتی ہے۔ یہ شاید اس لیے کہ ہمارے معاشرے میں اگر کسی مرد کو تکلیف دینی ہو تو اس کے گھر کی عورت کا ذکر سر راہ کیا جائے اور وہ ذکر بھی نازیبا الفاظ کے ساتھ کیا جائے تو اس سے زیادہ تکلیف دہ بات اس کے لیے کوئی اور نہیں ہوگی۔

یا شاید اس لیے کہ اگر عورت کو گالی دی جائے تو مرد یہ سمجھتا ہے کہ بہت سی اور باتوں کی طرح عورت یہ بھی برداشت کر لے گی کیونکہ اس کو اپنے حق کے لیے اواز اٹھانا نہیں اتا نہ ہی اس کو یہ سکھایا گیا ہے اس لیے وہ ان نازیبا الفاظ کے استعمال کے لیے ایک اسان ٹارگٹ ہے۔

میرے خیال میں ہمارے معاشرے میں تعلیم کے عام ہونے سے گالیوں میں اب کمی انی چاہیے۔ چونکہ تعلیم ہمیں اچھے اور برے کا فرق بتاتی ہے اور ہمیں شائستہ زبان استعمال کرنے کا شعور دیتی ہے اس لیے پہلے تو ہمیں گالیوں سے احتراز برتنا چاہیے اور اگر پھر بھی وہ لوگ جن کا ماننا ہے کہ گالیوں سے ان کو طمانیت ملتی ہے وہ گالیاں استعمال کرنا چاہے تو برائے کرم اپنے معاملات میں عورت کو حقیر جان کر نا گھسیٹیں۔

سندس بہروز انگریزی میں ماسٹرز کر رہی ہیں اور اور سماجی مسائل پر بلاگز بھی لکھتی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button