مجھے کام بتاو میں کیا کروں میں کس کو کھاوں
رانی عندلیب
مجھے کام بتاو میں کیا کروں میں کس کو کھاوں۔ یہ وہ الفاظ ہیں جس سے بہت سارے لوگوں کی بچپن کی یادیں جڑی ہوئی ہے۔ یہ ڈائیلاگ بچوں کے مشہور ڈرامے عینک والا جن کے ہیں۔ جس کسی نے بھی یہ ڈرامہ دیکھا ہوا ہے ان کو یہ ڈائیلاگ ضرور یاد ہونگے۔ بل بتوڑی ناسا چوڑی اور ہامون جادوگر کے ڈائیلاگز بھی سب کے ذہنوں میں نقش ہو کر رہ گئے ہیں۔
میرے خیال سے جب ہم چھوٹے تھے تو اس وقت بچوں کی ذہنی نشوونما اور ادب پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی تھی۔ بچوں کے ذہن کو مدنظر رکھ کر بہت سے ڈرامے، کارٹونز اور پروگرام بنائے جاتے تھے۔ سیف گارڈ کارٹون کے گیمز بھی کتابی شکل میں موجود ہوتے تھے۔
مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے ہوتے تھے تو کارٹون اور ڈرامے کے مقررہ وقت سے پہلے ہم سب بہن بھائی اپنا اپنا کام ختم کر کے ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے تاکہ اپنے پسندیدہ کارٹون اور ڈرامے سے خوب لطف اندوز ہو سکیں۔ وقت پر سکول کا کام ختم کر لیتے تاکہ امی ہم نہ ڈانٹ سکیں۔ ہماری ہر صبح کا آغاز چچاجی کے پروگرام سے ہوتا تھا جس میں بچوں کے لیے ورزش، کارٹون , گانا اور ڈرامہ ہوتا تھا، اس کو دیکھنے کے بعد ہم سکول جایا کرتے تھے۔
میں اپنے بچپن کی بات کروں تو اس وقت ٹی وی پر بچوں کے لیے "مینا کے ساتھ” کارٹون نا صرف نشر ہوتا تھا بلکہ اس کی کتابیں بھی سکول کی لائبریری میں پڑھنے کے لیے موجود ہوتی تھی۔ اس کی ہر قسط میں ایک سبق آموز نصیحت ہوا کرتی تھی اس کے علاوہ سیف گارڈ کارٹون سیریز نشر ہوتا تھا جس کو ہم بڑے شوق سے نہ صرف دیکھتے تھے بلکہ ہر نئے قسط کا بڑے بے صبری سے انتظار کرتے تھے۔
میں اپنے بچپن سے تھوڑا اور بھی پیچھے جاؤں تو 90 کی دہائی میں تو بچوں کے لیے بہت سے اچھے پروگرام اور یادگار ڈرامے نشر ہوۓ تھے جن میں انکل سرگم، انگن انگن تارے مشہور ٹی وی پروگرام تھے جن کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔
ان دنوں پاکستان ٹیلی وژن پر بچوں کے لیے مخصوص ٹائم ہوا کرتا تھا۔ پروگرام ٹی وی پر آن آئیر کیے جاتے تھے اور ساتھ میں بچوں کے لیے بہت سے رسالے بھی شائع ہوتے تھے۔ ان میں اپنے وقت کے بڑے بڑے شاعر اور نامور ادیب بچوں کے لیے نظمیں اور کہانیاں بھی لکھا کرتے تھے۔
پرانے وقتوں کے بچوں کے رسائل دیکھیں یا بچوں کے ادب کے بارے میں ماضی کے دریچے کھولیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کے جو بھی بڑے بڑے لکھاری اور ادیب تھے وہ بچوں کے لیے لازماً کچھ نہ کچھ لکھتے تھے اور ان عظیم شخصیات کی بچوں پر لکھی گئی کہانیاں اور نظمیں آج بھی اسی طرح مقبول و معروف ہیں جیسے اس وقت تھے۔
پہلے زمانے میں بچوں کے لیے اخبار میں الگ دو صفحات پر مشتمل رسالہ ہوتا تھا جو ہفتہ وار ہوتا تھا۔ اس میں بچوں کی نظمیں، کہانیوں ہوتی تھیں اور ٹی وی پر بچوں کے ذہنی لحاظ سے بنائے جانے والے پریوں اور جنات والے ڈرامے اور ذہنی آزمائش والے پروگرام ہوا کرتے تھے۔ جدید دور میں آہستہ آہستہ یہ سب نہ صرف ختم ہو گئے ہیں بلکہ رفتہ رفتہ وقت میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ کہانیاں لکھنے پڑھنے اورسنانے کا سلسلہ بھی ختم ہوا ہے۔
اس طرح اگر آج کل دیکھا جائے تو بچوں کی تفریح کے لیے نہ کوئی لکھاری موجود ہیں جو ان کے ادب پر کچھ لکھیں نہ ہی پاکستانی چینلز بچوں کی تفریح کے لیے پروگرام اور کارٹون بناتے اور نشر کئے جاتے ہیں جو سبق اموز ہو۔
اس لیے اج کل کے بچوں نے ٹک ٹاک اور مختلف سوشل میڈیا کو اپنی تفریح کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ جو مثبت ہونے کی بجائے منفی رحجان کا باعث بن رہا ہے۔
اس کے علاوہ اگر بچوں کی تفریح کے لیے تھوڑا بہت کچھ سوشل میڈیا پر موجود ہے تو وہ بھی دوسرے ممالک کی تخلیق ہے جن کو ہمارے بچے دیکھ کر نہ صرف دوسرے ممالک کی تہذیب کی پیروی کرتے ہیں بلکہ ہمارے ملک میں دوسرے ممالک کی تہذیب وثقافت آسانی سے پروان بھی چڑھ رہی ہے۔
یہاں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ آجکل کے مصروف میں دور میں عینک والا جن کارٹون کے طرز پر ڈرامے بنانے کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ بچوں کے لئے ٹی وی پر مخصوص ٹائم ہونا چاہئے کہ وہ ساری مصروفیات چھوڑ کر یہ دیکھنے پر مجبور ہوجائے اور اس سے کچھ اچھا سیکھ سکیں۔