بلاگزتعلیم

امتحانی ہال برائے فروخت

سعدیہ بی بی

ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے ایک جملہ بار بار سننے کو ملا مجھے اور وہ جملہ یہ ہے” کہ ہال بک گیا "۔ جس سے بھی امتحان کے بارے میں بات چیت ہوتی تو ان کے منہ سے ایسے ہی الفاظ سننے کو ملتے ہیں۔ میں اس جملے کی تہہ میں جانا چاہتی تھی کیونکہ ہمارے دور میں کبھی ایسے الفاظ سننے کو نہیں ملے ۔ کیا پتہ تب بھی ایسے ہی ہال خریدے گئے ہو لیکن ہمارا ذہن ان باتوں کی طرف نہیں تھا۔

مجھے اس بات کا تو پتہ تھا کہ جب کسی کی شادی ہوتی ہے تو اس کے لئے ہال بک کروایا جاتا ہے ۔ پر اس بات کا پتہ نہیں تھا کہ حال فروخت یا خریدے بھی جاتے ہیں۔ اس جملے کی تہہ میں جانے کے لیے مجھے ایسے شخص سے بات کرنی تھی جس کو اس کے بارے میں کچھ معلوم ہو۔

کچھ دن پہلے میں نے بہنا سے بات کی جوایک کالج کی کنٹرولر آف ایگزامنر ہیں۔ ان سے پوچھا کہ ہال کیسے خریدے جاتے ہیں اور یہ فروخت کیوں ہوتے ہیں؟ بہنا سے میری بڑی لمبی گفتگو ہوئی۔ انہوں نے اس کی دو بڑی وجوہات بتائیں۔ ایک یہ کہ سکول یا کالج کا نام خراب نہ ہو اور دوسری یہ کہ والدین چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے فیل نہ ہوں ۔ دراصل امتحانات اس لیے لئے جاتے ہیں تاکہ پتہ چلے کہ آیا بچوں نے جو پورا سال پڑھا ہے وہ ان کے ذہن میں بیٹھا ہے بچوں نے کچھ سیکھا یا نہیں لیکن آج کل امتحانات مذاق بن گئے ہیں۔

سکول یا کالج کے پرنسپل دو سے چار لاکھ میں ہال خرید لیتے ہیں تاکہ سارے بچے پاس ہو جائیں کیونکہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ پرنسپل کو ہی ہوتا ہے۔ بچے سارا سال پڑھتے نہیں ہیں کیونکہ ان کے ذہن میں یہی ہوتا ہے کہ نقل کر کے پاس کر لیں گے۔ کمرہ امتحان میں جاتے وقت چیکنگ بھی نہیں کی جاتی بچے اپنے ساتھ نقل کے انبار لے کر جا رہے ہوتے ہیں۔

آج کل تو پوکٹ گائیڈز بھی دستیاب ہیں ۔ بچے پوکٹ میں فون اور گائیڈز لے کر اندر جا رہے ہوتے ہیں اور تعلیمی عملہ انکو روکنے کے بجائے ان کا ساتھ دے رہا ہوتا ہے۔ کمرہ امتحان کے باہر باقاعدہ پرنٹرز رکھے جاتے ہیں تاکہ بچوں کے لئے آسانی ہو۔ آج کل تعلیمی نظام اس قدر خراب ہو گیا ہے کہ پیپر وقت سے پہلے ہی آؤٹ ہو جاتا ہے اور بچے موبائل فون کے ذریعے پیپر حل کرتے ہیں۔

امتحانی عملے کو رشوت دی جاتی ہے تاکہ وہ بچوں پر سختی نہ کریں ۔ ان میں سے کچھ ایسے بچے بھی ہوتے ہیں جو پورا سال پڑھتے ہیں لیکن ان کی محنت پر پانی پھر جاتا ہے کیونکہ کچھ بچے پورا سال نہیں پڑھتے اور ہال فری ہونے کی وجہ سے اچھے مارکس لے جاتے ہیں تو یہ باقی بچوں کے ساتھ زیادتی ہے۔

ہال فری ہونے سے پرنسپل کو بہت فائدہ ہوتا ہے کیونکہ اگر بچے امتحان میں فیل ہو جائے تو سکول یا کالج کے لیے بدنامی کا باعث بنتے ہیں اس لیے پرنسپل چاہتے ہیں کہ سکول یا کالج کی ریپو ٹیشن خراب نہ ہو ۔ تمام بچے اچھے نمبروں سے پاس ہو جائیں تاکہ باقی بچے بھی یہاں ایڈمیشن کروا سکیں۔

اس میں والدین کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ والدین خود بھی پرنسپل کو ہال خریدنے کی پیشکش کرتے ہیں تاکہ ان کا بچہ پاس ہو سکے۔ والدین چاہتے ہیں بھلے نقل سے پاس ہو جائے پر میرا بچہ پاس ہوجانا چاہیے۔ یہ سب سن کر مجھے بہت حیرت ہوئی کیونکہ میرے والدین چاہتے ہیں کہ اگر پاس ہونا ہے تو ایمانداری سے ہو نقل سے پاس ہونے کی ضرورت نہیں۔

ان ساری باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے بہنا سے ایک سوال کیا ۔ کیا آپ کے کالج کا ہال بھی بک گیا ؟ تو جواب ملا ” جی”۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ بچے پڑھائی میں بہت کمزور ہیں اس لئے پرنسپل نے ہال فری کردیا تاکہ سارے بچے اچھے نمبرز سے پاس ہو جائیں اور اگلے سال بہت سے بچے اس کالج کا رخ کریں۔

ہمارا تعلیمی نظام اس قدر خراب ہو گیا ہے کہ ہمارے بچوں کے ذہن میں ایک ہی بات بیٹھی ہے کہ نقل کر کے پاس ہو ہی جانا ہے۔ ہمارے امتحانی عملے رشوت لینے سے گریز کریں تو ان بچوں کا مستقبل سنور سکتا ہے۔ اگر حکومت تعلیمی نظام کو بہتر سے بہتر بنائے تو کبھی ہال خریدنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

سعدیہ بی بی کمپیوٹر سائنس کی طالبہ ہیں اور مختلف سماجی و معاشی مسائل پر بلاگزلکھتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button