بلاگزعوام کی آواز

میں پوچھتی ہوں، احتجاج ریکارڈ کرنے کا یہ کونسا طریقہ ہے؟

ماریہ سلیم

پاکستانی سیاست دانوں کو بچپن سے ہی لعن طعن کرتے اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے دیکھا اور سنا ہے لیکن اگر تقابلی موازنہ کیا جائے تو اس وقت کی سیاست تھوڑا بہت تہذیب کے دائرے میں رہ کر ہوا کرتی تھی۔ سوشل میڈیا اور آزادی رائے کے نام پر ایک دوسرے کو طرح طرح کے ناموں سے پکارنا، اندازِگفتگو، خدوخال اور خاندانی پیشوں کا تمسخر اڑانا، خواتین سیاستدانوں پر تہذیب سے گر کر گندے گندے کمنٹ کرنا اور ان کی کردار کشی کرنا ایک ناقابلِ برداشت عمل ہے۔

اپنے لیڈرز کی دیکھا دیکھی پارٹی فالورز بھی اسی طرح بیہودہ زبان استعمال کرکے انہیں سوشل میڈیا پر ڈیفینڈ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں. ان کارکنان کا لیڈرز سے اس حد تک محبت اپنی جگہ لیکن پرامن احتجاج کے نام پر سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانا درست نہیں۔

حال ہی میں عمران خان کی القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتاری کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے پرتشدد کارکنوں نے نہ صرف تھوڑ پھوڑ کرنا شروع کیا بلکہ ٹرانسپورٹ روکنا، ایمبولینس سے مریضوں کو نکال کے آگ لگا دینا، موٹروے اور گاڑیوں کو جلانا،ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت کو خاکستر کر دینا،یہاں تک کہ زندہ مویشیوں کی منڈی تو آگ لگا دی۔

میں پوچھتی ہوں یہ کون سا طریقہ ہے اپنے اثاثے جلا کے احتجاج کرنے کا؟ یہی بی آر ٹی جس کو پتھر مار کر شیشے توڑے گئے اسی بس سروس میں جانے کے لیے روز صبح یہی مشتعل عوام موجود ہوتی ہے، جن ایمبولینسوں کو آگ لگائی گئ، بیمار یا زخمی ہونے پر اسی ایدھی سروس کو کال کرتے ہیں، جو سڑکیں توڑی گئی انہیں سڑکوں کی مرمت نہ کروانے پر یہ لوگ منسٹروں سے شکوے کرتے ہیں، جس مویشی منڈی کو آگ لگائی گئی اس میں پورا سال اپنے جانوروں پر محنت کرنے والے بیوپاری اپنی جمع پونجی سے محروم ہو گئے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر یہ کون سی لڑائی ہے جس میں اپنے ہی گھر کو آگ لگائی جاتی ہے، اپنے ہی بندے قربان کیے جاتے ہیں۔

دوسری جانب سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شامل خواتین کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بدسلوکی اور تشدد کی وڈیوز دیکھ کر دل افسردہ ہوجاتا ہے۔ خان کی محبت سے سرشار بےشمار خواتین اور بچے ایسے ہیں جو احتجاج میں شریک ہونا چاہتے تھے لیکن امن و امان قائم رکھنے والے ادارے آرڈرز کے مطابق مظاہرین کو منتشر کرنے کےلیے لاٹھی چارج اور شیلنگ کا بھرپور استعمال کرتے رہے۔

سوشل میڈیا پر ایک لڑکی کی کلپ نظر سے گزری جس میں بالوں سے کھینچ کر اسے گھسیٹا جا رہا ہے۔ شہر میں امن و امان قائم رکھنا درست ہے لیکن صنف نازک کی سر عام بے حرمتی قتعاً قبول نہیں۔ ہمارے محافظ ہی جب ہماری رکھوالی نہیں کریں گے تو گلہ کس سے کریں۔

پاکستان میں سیاسی بحران پہلے ہی ہمیں آئینی اور معاشی طور پر پست کر چکا ہے اب یہی سیاست انتشار کی طرف رواں ہے جس کا نقصان کسی حکمران کو نہیں بلکہ ہم بیوقوف عوام نے بھگتنا ہے۔ سیاستدانوں میں صبر قلیل ہوگیا ہے، کرسی پر بیٹھنے والے کو دھرنے دے کر یا مختلف کیسوں میں پھنسا کے اتارا جاتا ہے اور دوسرا اس کی جگہ حاوی ہو جاتا ہے۔ اقتدار کے اس کھیل میں عوام کو مہرا بنا کے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ پاکستانی سیاست ایک مذاق بن گئی ہے، عوامی خدمات اور ان کی پریشانی سے انہیں کوئی لینا دینا نہیں،چاہئے تو صرف پاور۔۔۔!

حالات کا تقاضا یہی ہے کہ باضابطہ طور پر الیکشن منعقد کئے جائیں اور بغیر کسی تندی کے عوام کے فیصلے کو قبول کیا جاۓ۔ اس سیاسی جنگ میں ہماری قوم کے معصوم لوگ بے دریغ قتل کیے جاتے ہیں جن کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ وہ نکلتے تو اپنے لیڈر کی محبت میں ہیں لیکن مرنے کے بعد ان کی حیثیت ایک پارٹی کارکن تک محدود رہتی ہے جس کا نام بھی لیڈر نہیں جانتا لیکن اپنے پیچھے اپنے پورے خاندان کو عمر بھر کا روگ دے کر رخصت ہو جاتے ہیں۔

حالیہ اشتعال انگیزی میں فائرنگ کی وجہ سے آٹھ قیمتی جانیں گئی جو کہ ایک المیہ ہے۔ ہمارے حکمران اگر ووٹ کی جنگ سے نکل کر عوام کی بہتری اور بہالی کے لیے 50 فیصد توانائی بھی صرف کر لیں اور اداروں کو اپنا غلام بنانے کا تصور ذہن سے نکال دیں تو اگلی بار کے الیکشن کے لیے انہیں ووٹ مانگنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button