شمائلہ آفریدی
اندرون ملک ہی نہیں دنیا بھر میں پائے جانے والے پختہ تصور کے برعکس پاکستان میں خواتین کی ایک بڑی تعداد مردوں کے شانہ بشانہ گھر چلانے کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ دنیا بھر میں ہمارے معاشرے کے حوالے سے پایا جانے والا عمومی تاثر یہی ہے کہ ادھر خواتین کے حقوق کو غصب کیا جاتا ہے۔ ان پر ہر طرح کے مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ انہیں کسی بھی قسم کی آزادی حاصل نہیں ہے وغیرہ وغیرہ لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی معاشرے کو بھی اس حقیقت کا ادراک آہستہ آہستہ ہو چکا، اور مزید ہو رہا ہے کہ عورت کو تعلیم یافتہ، ہنرمند، کارآمد، باوقار اور بااختیار بنایا جائے کیونکہ آج کے دور میں کسی بھی خاندان اور معاشرے کی ترقی کا انحصار عورت کی کارکردگی اور قابلیت پر ہوتا ہے۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ دُنیا میری اور آپ کی خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ خاص اصولوں پر چلتی ہے۔ دنیا میں خواتین کا کردار بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا ہم مرد کے کردار کو سمجھتے ہیں۔ خواتین کو مواقع دینے چاہئیں۔ یہ خاندان، سماج اور دُنیا کی ترقی کا رُخ اور چہرہ بدلنے کی طاقت رکھتی ہیں۔
اللہ تعالی کی اس کائنات میں بہت سے انسان اعلی عہدوں پر فائز ہیں جو اپنے لئے جیتے ہیں لیکن ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ تعالی کے بندوں کو نفع پہنچانے جیسی مثبت سوچ رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک خدمت خلق کے جذبے سے سرشار صائمہ بھی ہیں جو خواتین کیلئے تعمیری کام کر رہی ہیں۔
پشاور کے حسن خیل سب ڈویژن سے تعلق رکھنے والی اعلی تعلیم یافتہ اور ہنرمند خاتون صائمہ آفریدی ایک ایسی پختون عورت ہیں جنہوں نے سماج کے بنائے فرسودہ رسم و رواج کو روند کر اپنی قبلیت اور ہنرمندی کے بل بوتے پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ صائمہ نے شہر کی آسائشوں رنگینیوں کو چھوڑ کر قبائلی لڑکیوں کو معیاری تعلیم دینے اور ہنر سے آراستہ کرنے جیسے عظیم مقاصد کو ترجیح دی۔
صائمہ کی میٹرک کے بعد شادی ہو گئی لیکن وہ رکی نہیں اور مزید اعلی تعلیم شادی کے بعد حاصل کی۔ اس نے اسلامیات، اردو میں ایم اے کیا اور ایم ایڈ، بی ایڈ بھی کیا۔ صائمہ کا شمار ان خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے ٹیچنگ کے شعبہ کے ساتھ مختلف دستکاری کے تربیتی کورسز کئے اور وہاں سے حاصل کردہ معلومات اور جدید ہنر کو اپنے علاقے کی خواتین کو مسلسل منتقل کرتی رہیں۔
آج صائمہ نہ صرف گوررنمنٹ ٹیچر ہیں بلکہ وہ علاقے کی پہلی قبائلی خاتون ہیں جو بیوٹیشن، کوکنگ، اور مہندی لگانا بھی سکھاتی ہیں۔ فنی تعلیم کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے صائمہ نے ابتداء گھر پر ہی علاقے کی بچیوں اور خواتین کو دستکاری، کپڑوں کی سلائی کٹائی کے علاوہ کڑھائی، اون سے سویٹر بنانا، چادروں کی گلکاری اور کشیدہ کاری سکھانے سے کی۔ لیکن اب وہ مختلف این جی اوز کے ساتھ مل کر ماسٹر ٹرینر کی حیثیت سے علاقے میں کام کرتی ہیں۔
صائمہ نہ صرف اعلی تعلیم، اور ہنر کے میدان میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں بلکہ وہ صحت کے شعبہ سے بھی وابستہ ہیں۔ صائمہ کے گاوں میں صحت کی مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ایک بچے کی پیدائش کے وقت موت واقع ہو گئی۔ اس واقعہ نے اس کے دل و دماغ پر گہرا اثر ڈالا جس کے بعد اس نے پشاور سے ایل ایچ وی کورس بھی کیا اور اب علاقے میں پریگننسی کے کیسز مفت کرتی ہیں۔
صائمہ نے اپنے تعلیمی سفر میں دوسری خواتین کی طرح بہت سے مشکلات کا سامنا کیا۔ شادی کے بعد بچوں کی پرورش، اور گھر کی دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ جاب کرنا آسان نہیں تھا لیکن اس کے دل میں قوم کیلئے درد موجود تھا جس کی وجہ سے اس حالات کا مقابلہ کیا اور فیملی کو اعتماد میں لیا۔
بدقسمتی سے صائمہ کو اپنی محنت کا وہ صلہ نہیں مل رہا ہے جس کی وہ حقدار ہیں۔ اگر وہ چاہتیں تو شہر جا کر اپنے ٹلینٹ سے بہت کچھ کما سکتی تھیں لیکن اس نے اپنے فائدے کا نہیں سوچا بلکہ قبائلی خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے عملی میدان میں اتر آئیں۔ اس سفر میں اس کی فیملی نے اس کا بھرپور ساتھ دیا۔
میں سمجھتی ہوں کہ جب علاقے میں ایسی خواتین موجود ہوں جو لوگوں کی سوچ میں ترقی پسند انقلاب لانے کا ہنر جانتی ہوں تو ایسی خواتین کی قدر کرنی چاہیے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں ایسے نہیں ہوتا۔ صائمہ کو بھی شروع شروع میں لوگوں کے قیادنوسی خیالات نے بہت تنگ کیا؛ اسے آوارہ گرد، آزاد خیال کہا گیا لیکن اس نے صبر کیا اور اپنے مقصد پر قائم رہی۔ آج انہی لوگوں کی ایک واضح اکثریت اس کی خدمات کا اعتراف کر رہی ہے۔
ختصر یہ کہ ذاتی طور پر میں اس امر کی قائل ہوں کہ ہمارے معاشرے، ہمارے ملک کو صائمہ آفریدی جیسی خواتین کی ضرورت ہے اور ایسی خواتین کی ہمارے ہاں کوئی کمی نہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں مواقع فراہم کئے جائیں، ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کی راہ میں کسی قسم کے روڑے نہ اٹکائے جائیں۔
نوٹ: شمائلہ آفریدی ایک ابھرتی ہوئی خاتون صحافی ہیں اور مختلف موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہیں۔