ہماری ڈرامہ انڈسٹری کو کس کی نظر لگ گئی؟
سندس بہروز
پچھلے دنوں میں ایک ڈرامہ دیکھ رہی تھی جس میں ساس بہو کی لڑائی ہو رہی تھی چینل بدلا تو وہاں کوئی رومینٹک سین چل رہا تھا بور ہو کر ٹی وی ہی بند کر دیا مگر افسوس ہوا کہ ہماری ڈرامہ انڈسٹری کو کیا ہو گیا ہے، شاید کسی کی نظر لگ گئی ہے کیونکہ اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک خصوصاً پڑوسی ملک ہندوستان میں بھی ہمارے ڈرامے کا طوطی بولتا تھا، یہ ابھی کل ہی کی بات ہے۔
باقی دنیا ترقی کی منازل طے کر رہی ہے، آگے بڑھ رہی ہے، مگر ہم تو کہیں اٹک گئے ہیں۔ ہم سب تابناک ماضی سے ایک تاریک حال میں پہنچ چکے ہیں اور اب اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا یا شاید ہم اس تاریکی سے نکلنا ہی نہیں چاہتے۔ فکر کی بات تو یہ ہے کہ ہم پوری قوم کو اس تاریکی کا حصہ بنا رہے ہیں کیونکہ ڈرامہ صرف ایک یا دو لوگ تو نہیں دیکھتے بلکہ پوری قوم اس سے لطف اندوز ہوتی ہے اور اس سے سیکھتی ہے۔
ڈرامہ کسی بھی قوم کی سوچ، رہن سہن اور روایات کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سے عوام بہت متاثر ہوتی ہے چاہے وہ ذہنی طور پر ہو یا جذباتی طور پر مگر کیا ڈرامہ لکھنے والوں یا اس کے بنانے والوں کو اس بات کا احساس ہے؟ جس ڈرامے میں دیکھو ساس بہو کی لڑائی چل رہی ہوتی ہے، دونوں ایک دوسرے کے لئے گڑھے کود رہی ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتی ہیں۔ کیا یہ لکھاری اور ہدایت کار اس کے نتیجے سے ناواقف ہیں؟ کیا وہ یہ نہیں سوچ رہے کہ غیرشادی شدہ لڑکیوں پر اس کا کیا اثر ہوگا؟ لڑکیوں کے دل ساس سے اچاٹ ہوجاتے ہیں اور ان کو ہرساس ایسی ہی لگتی ہے جیسے ڈراموں میں دکھائی جاتی ہے اور شادی کے فوراً بعد وہ بھی انہی سازشوں میں لگ کر اپنا سکون برباد کر لیتی ہیں۔
دوسری جو اہم چیز آج کل کے ڈراموں میں دکھائی جاتی ہے وہ عجیب و غریب قسم کی محبت ہے۔ اب یہاں پھر ہم نوجوانوں پر اس کے اثرات کو نظرانداز کر دیتے ہیں، حقیقت میں کہاں ایسی محبت ہوتی ہے جس میں آپ اپنے ماں باپ کی عزت کو داؤ پر لگا لیتے ہو، جو محبت سے زیادہ ضد ہوتی ہے محبت محبوب کی خوشی میں خوش ہونے کا نام ہے، لیکن ہمارے ڈراموں میں ایک امیر لڑکے کو کسی غریب لڑکی سے اگر محبت ہو جائے تو اس کو حاصل کرنا اس کی ضد بن جاتی ہے اور اس کے لئے وہ اپنے پورے خاندان کی عزت کو داؤ پر لگا لیتا ہے اور بدقسمتی سے ایسے کردار ہمارے ہیرو ہوتے ہیں، ایسے ہیروز بنا کر ہم نوجوان نسل کو کیا تعلیم دے رہے ہیں؟
ماضی میں ہم نے ڈراموں کا ایک سنہری دور دیکھا ہے جس میں ساس بہو کی لڑائی اور روتی بسورتی مار کھاتی ہوئی عورت کی بجائے بہادر اور نڈرعورت کو دکھایا جاتا تھا، جو اپنے حقوق سے واقف تھی اور ان کے لئے لڑنا بھی جانتی تھی؛ تنہائیاں اور دھوپ کنارے جیسے ڈرامے جو ہماری نوجوان نسل کو اپنے بل بوتے پر کچھ کرنے کا سبق دیتے تھے، اب تقریباً ناپید ہو چکے ہیں۔ من چلے کا سودا جیسے ڈرامے عوام کی روحانی اور ذہنی تربیت کرتے تھے، مزاحیہ ڈراموں میں مزاح ہوتا تھا نہ کہ بے حیائی کے عنصر پائے جاتے تھے۔الف نون اور جنجال پورہ ڈرامہ واقعی دیکھنے والے کو ہنساتے تھے مگر اب ہمیں کیا ہو گیا ہے؟ کیا ہم پستی کی طرف گامزن نہیں ہیں؟
ٹیکنالوجی کے دور میں میں ہمیں ایسے ڈرامے بنانے چاہئیں جو ہمارے نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے لئے لیے موٹیویٹ کرسکیں۔ حقیقت پر مبنی ایسے ڈرامے جو عوام کو سکھائیں کہ محبت میں ضد نہیں ہوتی اور رشتوں میں سازشیں!
کیا آپ بھی ڈراموں میں یہ تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں؟
سندس بہروز ایم فل انگلش لٹریچر کی طالبہ ہیں اور سماجی موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہیں۔