بلاگزعوام کی آواز

یوٹیلیٹی بلز گھر آ سکتے ہیں تو غریب کے گھر آٹا کیوں نہیں آ سکتا؟

نازیہ

کمر توڑ مہنگائی کے اس دور میں وزیراعظم محمد شہباز شریف کے حکم پر اسلام آباد، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں مستحق خاندانوں کے لیے مفت دس کلو اٹے کے تین تھیلوں کے تقسیم کا جیسے اعلان ہوا تو غریب عوام خوش ہو گئی، اور حیران زیادہ، کہ اچانک یہ ناترس حکومت مہربان کیسے ہو گئی۔

لیکن اس غریب عوام کی خوشی، اور حیرانگی دونوں زیادہ دیرپا ثابت نہ ہوئیں کہ حکومت کی یہ مہربانی اب تک کئی بندوں کی جان لے چکی ہے، کئی مجروح بھی ہوئے، اور عزت نفس جو مجروح ہو رہی ہے اس کی تو بات ہی نہ کریں کہ اس کی تو کسی کو سرے سے پرواہ ہی نہیں ہے۔

بےروزگاری اور غربت نے ملک میں بری طرح سے اپنے پنجے گاڑ کر رکھے ہیں۔ بدقسمتی ملاحظہ ہو کہ ایک زرعی ملک میں لوگ فاقہ کشیوں پر مجبور ہوچکے ہیں۔ تعلیم و روزگار تو ایک طرف غریب ماں باپ اپنے بچوں کو دو وقت کا کھانا ہی نہیں دے سکتے۔ ان حالات میں وہ آٹا حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش نہیں کریں تو کیا کریں۔

ایک تو رمضان اوپر سے طویل قطاریں، روزہ کی حالت اورانتظار۔ جیسے ہی ٹرک آیا دھکم پیل شروع ہو گئی، ضعیف العمر شہری پیروں تلے کچل گئے۔ سوشل میڈیا پر ایک بزرگ شہری کی تصویر نے دل ایسا اداس کر دیا کہ آج بھی افسردہ ہے۔ ان کی لاش کے پاس ایک تھیلا آٹے کا رکھ دیا اور اس کی تصویر بنا کر سوشل میڈیا پر پھیلا دی گئی۔

خواتین کو بھی اٹے کے حصول کے لئے قطاروں میں کھڑے ہوتے دیکھا گیا۔ کم از کم یہ امید نہیں تھی پر کیا کیجیے کہ مملکت خداداد میں کوئی بھی انہونی ہو کر رہ سکتی ہے۔

یہاں پر کچھ اہم سوالات بنتے ہیں:

1۔ جب یوٹیلیٹی بلز گھر آ سکتے ہیں تو آٹا غریبوں کے گھر کیوں نہیں آ سکتا؟

2۔ ووٹ مانگتے وقت جب سیاستدان گھر گھر جا سکتے ہیں تو آٹا دینے گھر گھر کیوں نہیں جا سکتے؟

3۔ حکومتی اخراجات کروڑوں، اربوں میں لیکن جب غریب کی بات آتی ہے تو خزانہ خالی ہوتا ہے، کیوں؟

اصل بات تو یہ ہے کہ جو لوگ پہلے بھوک سے مر رہے تھے اب وہ حکومت کی طرف سے ملنے والے مفت آٹے کے حصول کے لئے مر رہے ہیں۔ لوگ مفت آٹا حاصل کرنے کے لئے سرتوڑ کوششیں کرتے کہیں ہجوم کی وجہ سے جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں، محض اٹے کے تین تھیلوں کے لئے، تو کہیں پر آپسی لڑائی جھگڑوں راہی ملک عدم ہو رہے ہیں۔ یہ نہیں تو پولیس کی طرف سے ان پر لاٹھی چارج تو کہیں گیا ہی نہیں۔ غریب عوام مجبور ہے آخر کرے بھی تو کیا کرے۔

جب غریب آٹا لینے کے لئے پہنچتا ہے تو اسے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اٹا کم پڑ گیا ہے بعد میں آ کر لے جانا۔ اب یہ مذاق نہیں تو کیا ہے۔ چھینا جھپٹی کرنے والوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن غریب اگر اپنی بھوک مٹانے کےلیے کچھ چھین رہا ہو تو اسے برا بھی نہیں سمجھا جا سکتا۔ غربت کی ایسی صورتحال ہے کہ اگر غریب اپنا حق چھین کر نہیں لے گا تو وہ اس سے محروم ہو جائے گا۔ اگر ایک غریب کو اپنا حق باعزت طریقے سے دے دیا جائے تو وہ کیوں چھینا جپھٹی کرے گا؟

بھوک اور بیماری کی وجہ سے بچوں کی اموات ہو رہی ہیں پھر ظاہر سی بات ہے کہ غریب بھوک سے اپنے بچوں کو تڑپتا دیکھنے کے بجائے آٹا چھیننے کو ہی ترجیح دیں گے۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ ایک دوسرے سے آٹا چھین رہے ہیں وہ بھی بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں۔

حکومت نے غریب عوام کو مفت آٹے کی فراہمی تو یقینی بنا دی ہے جو ایک اچھا قدم ہے لیکن اس کی تقسیم کے لئے کوئی موثر طریقہ کار اپنانا چاہیے۔

حکومت اپنے مقصد میں کامیاب ہوتی اگر راشن کارڈ پر نزدیک سٹور سے مہینے میں دو سے تین بار آٹا مفت دیتی۔ ضعیف، بیمار، خواتین اور معذور افراد کو ان کے گھر پر آٹا فراہم کر دیا جاتا۔ اس طرح سے لوگوں کو مفت آٹا عزت اور سہولت کے ساتھ ملتا۔

بہتر تو یہ ہوتا اگر حکومت آٹے کو گلی اور محلوں تک پہنچاتی یا آٹا دکانوں پر رکھوایا جاتا۔ حکومت سے میری درخواست ہے کہ اٹے کی تقسیم کے لیے موثر طریقہ کار ترتیب دے تاکہ عوام باعزت طریقے سے آسانی کے ساتھ آٹا حاصل کر سکے اور مزید پریشانی سے بچ سکے۔

ویسے بچپن سے یہی پڑھتے آ رہے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ ہے تو سہی پر اس زرعی ملک میں غریبوں کے لیے وافر مقدار میں گندم کیوں موجود نہیں ہے؟

نازیہ ایک گریجویٹ اور بلاگر ہیں۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button