"میرا جسم میری مرضی” لوگ اس نعرے کو غلط کیوں لیتے ہیں؟
اسی طرح اگر خواتین دیگر مغربی معاشرے سے متاثر ہوکر ان کے لباس کی طرح لباس زیب تن کرنا چاہتی ہیں تو کرنے دیاجائے
ارم رحمان
8 مارچ اقوام متحدہ سے منظور شدہ دن ہے جو ساری دنیا کی خواتین کے بنیادی سماجی, معاشی اور معاشرتی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی پہلی خاتون اور بعد ازاں ان کی دیگر ساتھیوں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔
1910 کوپن ہیگن میں ایک کمیونسٹ خاتون کلارا ازتکن نے انٹرنیشنل کانفرنس آف ورکنگ وویمن میں خیال پیش کیا کہ خواتین کے کام کرنے کا دورانیہ کم، تنخواہ بہتر بنائی جائے اور خواتین کو ووٹ کا حق دیا جائے۔ وہاں 17 ممالک سے نمائندہ 100 خواتین موجود تھیں اور سب نے اس رائے سے اتفاق کیا۔
اگلے سال یعنی 1911 میں سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے پہلا قومی یوم نسواں منایا۔
1917 تک اس دن کو منانے کے لئے تاریخ متعین نہیں ہوئی تھی۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران روسی خواتین نے روٹی اور امن کے مطالبات کے ساتھ ہڑتال کی ،4 دن بعد روسی سربراہ کو حکومت چھوڑنی پڑی اور خواتین کو ووٹ کا عبوری کا حق مل گیا۔
1975 میں سرکاری طور پر اس دن کی اہمیت کو تسلیم کر لیا گیا اقوام متحدہ نے اسے منانا شروع کر دیا۔
کئ مملالک میں اس دن عام تعطیل ہوتی ہے اور امریکہ میں تو مارچ کامہینہ تاریخ نسواں کے طور پر منایا جاتا ہے۔
یہ تو تھے مغربی ممالک میں منایا جانے والا خواتین کا عالمی دن۔
بات کرتے ہیں ہمارے پاکستانی معاشرے میں اس دن کی اہمیت اور معاشرے کے مردوں کے رد عمل کے بارے می۔
پاکستان میں کچھ عرصے سے بہت نمایاں اور متنازع نعرہ
” میرا جسم میری مرضی ” پر بحث مباحثے ہورہے ہیں
سارے طبقات کی خواتین کی رائے ممکنہ طور پر اس جملے کے حوالے سے اتنی عمدہ اور درست نہ ہو
لیکن خواتین کی اکثریت جس آزادی اور نسوانی وقار کی متقاضی ہے وہ محض بے راہ روی ، گمراہی یا شتر بے مہار کی طرح زندگی گزارنے کی سوچ سے یکسر متفق نہیں ، خواتین کی آزادی سے مراد جو ذہین اور سمجھدار خواتین لے رہی ہیں ، اس کے کچھ انتہائی اہم نکات بیان کر دیتی ہوں۔
بچی کی کم عمر میں شادی نہ کی جائے۔ بچیوں کو ایسی تعلیم دی جائے جو انھیں مالی تحفظ مہیا کر سکے۔ مشکل حالات میں وہ دوسروں کے رحم وکرم پر یا بے یارومددگار ہوکر خیرات زکوٰۃ پر گزارہ کریں اس سے بہت بہتر ہے کہ اپنے زور بازو سے باعزت رزق حلال کما کر زندگی گزاریں۔ اسی طرح میرا جسم میری مرضی کے حوالے سے خواتین جنسی استحصال ، پبلک پلیس یا دیگر محافل میں ہراساں کیے جانے سے تحفظ چاہتی ہیں۔ ہروقت لوگوں کے گھورںے ،جملے کسنے یا تمسخر اڑانے پر پابندی لگانا چاہتی ہیں۔ خواتین اگر حجاب اور برقعہ میں آرام محسوس کرتی ہیں تو انھیں اس لباس کے حوالے سے تنقید کانشانہ نہ بنایا جائے۔
اسی طرح اگر خواتین دیگر مغربی معاشرے سے متاثر ہوکر ان کے لباس کی طرح لباس زیب تن کرنا چاہتی ہیں تو کرنے دیاجائے اور اس حوالے سے ان کے کردار کشی نہ کی جائے کہ انھوں نے مغربی انداز کالباس پہننا پسند کیا ہے۔
ایک طبقہ "میرا جسم میری مرضی” کا بہت ہی غلط مطلب لینے پر تلا ہے
چلیے وقتی طور پر مان لیتے ہیں کہ وہ خواتین غلط شرائط پیش کر رہی ہیں لیکن کیا ساری پابندیاں اور لباس پہننے کی ساری پابندیاں صرف عورت کے لیے ہی ہے ؟
کیا مرد کو کھلی چھٹی ہے کہ وہ کسی بھی عورت کو کسی بھی بات پر بنیاد بنا کر ہراساں کر سکتا ہے ؟
کیا کسی پبلک پلیس پر اگر کچھ خواتین دوست پارٹی کر رہی ہیں یا ایک ساتھ گھوم پھر رہی ہیں تو وہاں مرد انھیں گھورنے تاڑنے اور آوازیں کسنے کے لیے آزاد ہوگئے ہیں ؟
جو خواتین گھر کی مالی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے باہر ملازمت یا روزگار کی تلاش میں نکلتی ہیں ان کو تنگ کرنا ،دست درازی کرنا مردوں پر واجب یا فرض ہو جاتا ہے ،؟
کم عمر بچیاں بڈھے ، نالائق ، نشئ، کام چور مردوں کے پلے باندھ دی جاتی ہیں کہ یہ ذات برادری کے مرد ہیں کیا یہ صحیح ہے ؟ لڑکی کے عشق معاشقے یا کسی مرد کے حوالے سے اس پر پابندی لگانا سمجھ میں آتاہے لیکن کیا کسی لڑکی سے یہ ہر گز نہیں پوچھنا چاہیے کہ جس شخص سے اس کی شادی کی جارہی ہے جو ایک دو دن یا ماہ وسال کا معاہدہ نہیں بلکہ ساری زندگی کا فیصلہ ہے ،لڑکی کو اس بندے کے بارے میں جاننے کا یا پسند ناپسند کرنے کا کوئی حق نہیں ؟
لڑکیوں کی شادی ایسے کی جاتی ہے جیسے بکری منڈی میں قربانی کے بکرے دیکھنے جاتے ییں۔ تضحیک آمیز رویہ اور طعنے تشنے۔ پھر جہیز کی لمبی فہرست ،کم یا غیر معیاری جہیز لانے پر سسرال والوں کے طعنے ظلم اور زیادتی کس نے اجازت دی ہے ؟ بیٹی پیدا ہوجائے تو بیٹا نہ پیدا کرنے کے طعنے یاپھر طلاق جیسی زیادتی۔
جو خواتین مردوں کے شانہ بشانہ چل کر پیسے بھی کماتی ہیں اور گھر داری بھی کرتی ہیں بچے پیدا کرتی ہیں، پالتی ہیں ،اگر شوہر ان کی گھرداری میں مدد کردے تو کیا شوہر کی شان میں گستاخی ہو جائے گی ؟ یا ناک کٹ جائے گی ؟
اسی طرح دیگر سوالات اور خیالات جن کے حل کے لیے مردوں کی باقاعدہ تعلیم و تربیت ہونی ضروری ہے سکول کالج میں ہی ایسا معیار بنانے کی ضرورت ہے جہاں عورت اور مرد میں قابلیت صلاحیت اور کام کرنے میں امتیاز نہ برتا جائے ،
اگر ایک مرد اچھا باورچی جسے فخر سے شیف کہا جاتا ہے ، بن سکتا ہے تو عورت ٹرک یا ٹیکسی کیوں نہیں چلا سکتی ؟
اگر عورت مزدور ہو سکتی ہے تو فائٹر پائلٹ کیوں نہیں ہوسکتی ؟
مرد عورت ڈاکٹر ،نرسز استاد اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں برابر کی اہمیت اور حیثیت رکھتے ہیں تو پھر وہ پبلک پلیس یا کسی پارک میں اپنی مرضی کے لباس میں کیوں نہیں گھوم پھر سکتی ؟
کسی بھی مہذب معاشرے میں اقدار اور وقار کا خیال رکھاجاتاہے اور رکھا جانا چاہیے ، لیکن اگر کوئی غلطی کر رہا ہے یا آزاد خیالی کے نام پر کوئی خاتون نازیبا لباس زیب تن کر رہی ہے جو اسلامی معاشرے کے لحاظ سے متصادم ہے تب بھی اس خاتون کو ہراساں کیے جانے کا حق کسی کو نہیں۔
مغربی ممالک میں بہت سی مسلم خواتین اپنے اسلامی لباس میں پھرتی ہیں کچھ جگہوں کے علاوہ ہر جگہ پابندی نہیں ہے ، لیکن جہاں ہابندی ہے وہاں بھی لباس یا طور اطوار مذہبی رسوم کے حوالے سے تھوڑی بہت قانون سازی ہے لیکن ہراساں کیے جاناظلم و زیادتی کرنا یہ تو کسی بھی ملک میں رائج نہیں حتیٰ کہ بہت شدید تعصب ، بغض و عناد ہو تب بھی حکومت اکثرغیر جانبدار رہتی ہے۔ اور انصاف کے اصول مد نظر رکھتے ہوئے ہی فیصلہ کرتی ہے
ہم تو پاکستان میں رہتے ہیں جہاں اسلام کا بول بالا ہے جس میں تو عورت پر دوسری نگاہ ڈالنا ہی حرام ہے چہ جائیکہ اس کے ساتھ بدتمیزی یا دست درازی کرنا۔
خواتین کے جو بنیادی حقوق بحیثیت انسان ملنے چاہیں وہ لازمی دینے ہیں یہ آئین میں درج ہے۔
اگر خواتین کو مرد کے برابر انسان سمجھا جائے اور اس کے کردار کی پرکھ محض لباس یاظاہری رہن سہن سے نہیں بلکہ اخلاق اور صلاحیت و قابلیت کی بنیاد پر کی جائے اس کی بھی دفاتر اور دیگر تمام اداروں میں اسی طرح عزت و احترام ملحوظ خاطر رکھاجائے تو خواتین بھی اپنی بے ہنگم سوچ کو قابو میں رکھ سکیں گی۔ بغاوت کرنے کی بجائے حالات و واقعات کے مطابق دانشمندانہ فیصلہ کر سکیں گی۔ اسلام کے نام پر فضول اور بے ہودہ پابندیوں میں نہ جکڑا جائے۔ جو آزادی اور حقوق اللہ تعالیٰ نے عورت کو دئیے ہیں اگر تمام پاکستانی خواتین کو آئینی اور سماجی حوالے سے مل جائیں تو پھر خواتین اوٹ پٹانگ نعروں کے ساتھ سڑکوں پر جمع ہونے کی بجائے اپنے گھروں میں پرسکون بیٹھیں گی اور 8 مارچ کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ خوشی اور سکون سے منایا کریں گی