نیکی فاؤنڈیشن: مفت فنی تعلیم دینے والی آرگنائزیشن
ماریہ سلیم
کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار افرادی قوت پر ہوتا ہے اگر عوام باشعور اور ہنر مند ہے تو ملک ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوگا تاہم اگر کسی ملک کی آبادی زیادہ ہے لیکن عوام ہنر مند نہیں تو اس ملک کو افراد قوت سے کوئی فائدہ نہیں۔
گزشتہ صدی میں رسمی تعلیم کو ہی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دنیا ڈیجیٹلائزیشن کی طرف جاتی گئی، موجودہ دور ڈگری سے زیادہ مہارت کا دور ہے، بیشتر اعلی تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد مطلوبہ نوکری حاصل نہیں کرسکتے ایسے میں اگر ڈگری کے ساتھ کوئی ہنر ہاتھ میں ہو تو روزگار حاصل کرنے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔
رسمی تعلیم انسان کو ادب و شعور دیتی ہے تو فنی تعلیم انسان کی پوشیدہ خصوصیات کو اجاگر کرتی ہے، پاکستان میں فنی تعلیم کا رجحان کچھ خاص نہیں جس کی وجہ سے بیروزگاری میں خاطرخواہ اضافہ ہوا۔
ملک میں ہنرمندی اور صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے بس ضرورت اس امر کی ہے کہ اس صلاحیت کو اجاگر کیا جائے اور باصلاحیت نوجوانوں سے فائدہ اٹھایا جائے جبکہ یہی نوجوان ملکی صنعتوں میں کام کر کے ملک کو معاشی استحکام کی طرف لے جا سکتے ہیں اور فنی ٹریننگ لینے کے بعد باہر ممالک جاکر ہمارے زرمبادلہ میں اضافہ کر سکتے ہیں اور بیروزگاری کو لگام ڈال سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں اعلیٰ ڈگری یافتہ لوگوں کے پاس تھیوری تو ہوتی ہے لیکن پریکٹیکل مہارت نہیں ہوتی جبکہ کاریگروں کے پاس مہارت ہوتی ہے لیکن تھیوری نہیں، ایسے میں ووکیشنل ادارے ہوتے ہیں جو تھیوری اور ہنر ساتھ ساتھ سکھا کر اپنی فیلڈ کا سلطان بنا دیتے ہیں۔
ان سینٹرز میں عموماً وہ لوگ داخل ہوتے ہیں جو سکول نہیں جا سکتے یا غربت کی وجہ سے پڑھائی جاری نہیں رکھ سکتے، بجائے کسی استاد کے پاس شاگرد ہونے کہ وہ باعزت طور پر یہاں ہنر سیکھ سکتے ہیں۔
ایک فرد کی تعلیم صرف ایک فرد کو فائدہ دیتی ہے جبکہ ایک عورت کی تعلیم پوری نسل کو فائدہ دیتی ہے تاہم بیشتر خواتین معاشی مسائل کی وجہ سے تعلیم تو مکمل نہیں کر سکتی لیکن اگر کوئی ہنر سیکھ لیں تو اپنے گھر کر مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ ہاتھ بٹا سکتی ہیں اور آمدنی میں اضافہ کر سکتی ہیں۔ ان اداروں میں لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیاں بھی اپنی مرضی کا فن سیکھ کر معاشی آسودگی حاصل کر سکتی ہیں، سلائی کڑھائی، بیوٹی پالر، ڈیزائننگ، ٹائپنگ، یوٹیوب چینلز اور بیشتر ایسے کام ہیں جو وہ گھر بیٹھےکر سکتی ہیں۔
موجودہ وقت میں پھولوں کے شہر پشاور کو ہنرمندوں کے شہر میں ڈھالنے کے لیے صباحت غزنوی نے پہلا قدم اٹھایا ہے۔
صباحت غزنوی "حلقہ درود و سلام نیکی فاؤنڈیشن” کے چئیرمین ہیں اور اپنے ادارے کو گورنمنٹ کے ساتھ رجسٹرڈ کروا کے پشاور کے لڑکے لڑکیوں کو پیشہ ورانہ تعلیم کی طرف لا رہیے ہیں۔
"حلقہ درود و سلام” حضور ﷺ سے بے لوث محبت کی بنیاد میں وجود میں آیا جس کا مقصد ایک بلین مرتبہ نبی ﷺ کی ذات پر درود پاک بھیجنا تھا۔
پہلا حدف کامیابی کے ساتھ مکمل کرنے کے بعد صباحت غزنوی اور انکی ٹیم مذہبی کاوشوں کے ساتھ ساتھ سماجی استحکام کی طرف متوجہ ہو گئی اور رمضان شریف میں افطار دسترخوان لگانے کا اہتمام کرنے کا آغاز کیا اور ساتھ ہی ہسپتالوں میں اور فٹ پاتھ پر لوگوں کو افطاری کروائی گئی۔ اس کامیاب سلسلے کو منعقد کرنے کے بعد ٹیم کا حوصلہ مزید بڑھا اور اپنی توانائی نوجوانوں کو باروزگار اور ہنرمند بنانے کے لیے وقف کر دی، ابتدائی طور پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن حوصلے پست نہ ہوئیں۔
تعلیمی اداروں کی فیسیں دیکھ کر ارادہ کیا کہ ایسا طریقہ کار اپنایا جائے کہ جو بچے پیسوں کی وجہ سے تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں انہیں اعلیٰ تعلیم مفت دی جائے اور اس روزگار پروگرام میں ان کو ایسے شارٹ ٹرم کورسز کروائیں جائے جن کو سیکھنے کے بعد وہ مارکیٹ میں اپنے سکلز بیچ سکیں۔ موجودہ دور فری لانسنگ کا دور ہے جس میں گھر بیٹھ کر غیر ملکی کلائٹس کے لیے کام کر کے ڈالرز اور پاؤنڈز کمائے جا سکتے ہیں لیکن شرطیکہ آپ کے اپنے سکلز اور ٹولز پر مہارت ہو۔
گرافک ڈیزائننگ، وڈیو اور پکچر ایڈیٹنگ، فوٹو گرافی، سوشل میڈیا مارکیٹنگ، آنلائن ٹیوٹر شپ، کونٹینٹ رائٹنگ اور بیشتر مزید سکلز سیکھ کر گھر بیٹھے اپنی دوکان چمکا سکتے ہیں۔ حلقہ درود وسلام نیکی فاؤنڈیشن نے مندرجہ بالا سکلز کو مدنظر رکھتے ہوئے بنیادی سطح پر آئی ٹی، مائکروسافٹ آفس، گرافک ڈیزائننگ، جرنلزم، اور ویب ڈیولپمنٹ جیسے کئی ڈپلومہ اور سرٹیفکیٹ کورسز بلکل مفت متعارف کروائے ہیں جبکہ لڑکیوں کے لیے یہ آرگنائزیشن بیوٹی پارلر، انٹیرئر ڈیزائننگ، کوکنگ اور دستکاری پروگرامز کا آغاز کر چکے ہیں۔
اس آرگنائزیشن کی خاص بات یہ ہے کہ کورس مکمل ہونے کے بعد اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طالب علموں کو پیڈ انٹرنشپز سے بھی نوازا جاتا ہے اور انہیں اپنا بزنس شروع کرنے میں معاونت بھی دی جاتی ہے۔
صباحت غزنوی بظاہر تو ایک سول سرونٹ، الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ وابستہ اور ویل سیٹلڈ ہیں لیکن اپنی پرآسائش زندگی کے باوجود اپنے بیروزگار اور ضرورت مند بھائیوں، بہنوں کے لیے دردِ دل رکھتے ہیں اور بجائے انکی مالی معاونت کرنے کے انکو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے ہر دم کوشاں ہیں تاکہ انہیں کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے اور مہنگائی کے اس دور میں مرد عورت مل کر گھریلو ضروریات پوری کر سکیں۔
صباحت اپنی کامیابی کی وجہ اپنی مضبوط ٹیم کو مانتے ہیں ان کی ٹیم میں علاقائی سطح پر ممبرز کا انتخاب کیا گیا ہے تاکہ مختلف علاقوں میں یہ سرگرمیاں جاری رہ سکیں۔