رعناز
پچھلے دنوں بہن کی طبیعت خراب ہونے پر میں اسے ہسپتال لے کر گئی۔ پہلے تو گھنٹوں گھنٹوں ہم نے ڈاکٹر کے کمرے کے سامنے انتظار کیا۔ پھر آخرکار نمبر آنے پر میں اپنی بہن کو اندر لے کر گئی اور اسے ڈاکٹر کے سامنے بٹھایا تو ڈاکٹر جسے ہم مسیحا کا نام دیتے ہیں، اسے تو یہ احساس ہی نہیں تھا کہ سامنے والا مریض بخار میں تپ رہا ہے، اسے احساس تھا تو صرف فون پر گھنٹوں بات کرنے کا، وہاں پر میرے ذہن میں یہ سوال اٹھا کہ کیا یہ ہے وہ مسیحا جس کی ڈیوٹی مریض کی جان بچانا ہے؟ کیا مریض ان کے سامنے تڑپ رہے ہوں گے اور یہ تب علاج کریں گے جب ان کی فون پر بات ختم ہو گی؟
تندرستی ہزار نعمت ہے۔ اچھی زندگی کے لیے اچھی صحت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر انسان کو زندگی میں صحت کے مسائل درپیش آئیں تو علاج کے لیے اس کا واسطہ ڈاکٹر سے پڑتا ہے۔ حکومت نے عوام کے علاج معالجے کے لئے مختلف ہسپتال بنائے ہیں جہاں مریضوں کا علاج ہوتا ہے لیکن افسوس اور نہایت افسوس کی بات ہے کہ وہاں پر موجود عملہ (خصوصاً ڈاکٹرز) کا رویہ نہایت نامناسب اور غیرتسلی بخش ہوتا ہے جس کی وجہ سے مریض اور ان کے لواحقین کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہمارے ملک کے ڈاکٹرز کے اس قسم ناروا رویے کی وجہ سے مریض اور ان کے لواحقین خوار ہوتے رہتے ہیں، ان کا وہ مناسب علاج نہیں ہوتا جس کی ان کو ضرورت ہوتی ہے۔ ان کو ڈاکٹرز کا وہ وقت نہیں ملتا جو ایک مریض کو ملنا چاہئے۔ مختصر یہ کہ ان کا وقت پر علاج نہیں ہوتا۔
یہ بات بھی ہمارے مشاہدے میں آئی ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں تعینات ڈاکٹرز اکثر مریضوں کو اپنے پرائیویٹ کلینک آنے کا مشورہ دیتے ہیں، تو کیا یہ ڈاکٹرز سرکاری ہسپتالوں میں ڈیوٹی دینے کی حکومت سے بھاری تنخواہیں نہیں لیتے؟ کیا یہ انصاف کا تقاضہ ہے کہ مریضوں کو پرائیویٹ کلینک میں بلا کر بڑی بڑی فیسیں لی جائیں؟ کیا وہ علاج سرکاری ہسپتال میں نہیں ہو سکتا جو پرائیویٹ میں ہوتا ہے؟ ہو سکتا ہے، بالکل ہو سکتا ہے لیکن وہاں پر ڈاکٹرز کو وہ فیس نہیں ملتی جو کہ پرائیویٹ کلینک میں ملا کرتی ہے لہذا اس طرح ہمارے ملک کے مسیحا حکومت سے بھی بھاری تنخواہ لیتے ہیں اور مجبور اور لاچار مریضوں سے بڑی بڑی فیسیں بھی، حالانکہ ان کی اولین ترجیح مریض کا علاج ہونا چاہئے فیس نہیں۔
اسی طرح اگر ہم دیکھیں تو اکثر اوقات ڈاکٹرز اپنے کمروں میں بیٹھ کر گپ شپ لگا رہے ہوتے ہیں اور باہر مریض تڑپتے نظر آتے ہیں، اگر مریض کے لواحقین ڈاکٹر کو بلانا بھی چاہیں تو ان کو یہ کہہ کر روک دیا جاتا ہے کہ اندر میٹنگ چل رہی ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ڈاکٹرز اپنا فریضہ سرانجام نہیں دے رہے اور اپنی ڈیوٹی میں غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ہاں میں یہ بات بھی مانتی ہوں کہ زیادہ تر ڈاکٹرز اپنی ڈیوٹی صحیح طریقے سے نبھا رہے ہوں گے مگر اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے بھی ہیں جو اس مہذب پیشے کی دھجیاں اڑانے پر تلے ہوئے ہیں۔ لیکن خیر وہ کہتے ہیں نا کہ ایک مچھلی سارے تالاب کو گندا کر دیتی ہے۔
اسی طرح اگر ہم دیکھیں تو ہسپتال کے ایک کونے میں الٹراساؤنڈ کروانے کی جگہ ہو گی تو دوسرے کونے پر ٹیسٹ کروانے کے لیے لیبارٹری، تو اس کی وجہ سے بھی مریض کے علاج میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹرز مریض کے ٹیسٹ کروانے کے لیے کبھی ہسپتال کے ایک کونے میں بھجواتے ہیں تو کبھی الٹراساؤنڈ کرنے کے لیے دوسرے کونے میں اور بعض اوقات اسی اثناء میں مریض ہی دم توڑ جاتا ہے۔
بعض اوقات کچھ ناتجربہ کار ڈاکٹرز جو کہ ابھی ٹریننگ پر ہوتے ہیں، ان کی غفلت کی وجہ سے بھی کئی مریضوں کی جانیں چلی جاتی ہیں۔ اسی طرح عید کے دنوں میں ڈاکٹر ہسپتالوں سے غائب ہوتے ہیں یا زیادہ تر عملہ غیرحاضر ہوتا ہےجس کی وجہ سے مریضوں اور ان کے لواحقین کو خوار ہونا پڑتا ہے۔
لہٰذا ڈاکٹرز کو اپنی ذمہ داریاں پہچاننی اور بخوبی نبھانی چاہئیں، ان کو اپنے پیشے کے اصولوں کا پابند ہونا چاہیے، اور ان کو چاہئے کہ اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے سرانجام دیں کیونکہ یہ ہمارے معاشرے کا وہ طبقہ ہے جو ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کرتا ہے۔
ڈاکٹرز اپنے پیشے میں اجرت کے ساتھ ساتھ آخرت کی نفع کو بھی پا سکتے ہیں بشرطیکہ وہ اس پیشہ کو صرف تجارت کے طور پر اختیار نہ کریں بلکہ ہمیشہ انہیں اپنے دل و دماغ میں یہ بات رکھنی چاہیے کہ میں مسیحا بنا کر بھیجا گیا ہوں اور میرا کام ہے انسانوں کی جان بچانا، نہ کہ انہیں لوٹنا یا پھر ستانا!
رعناز ٹیچر اور کپس کالج مردان کی ایگزام کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔