بلغاریہ کی مارکیٹ جہاں دلہن بیچی اور خریدی جاتی ہے!
ماریہ سلیم
مارکیٹ سے آپ نے سبزی، پھل، کپڑے، جوتے اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی چیزیں تو خریدی ہوں گی لیکن ایک ایسی مارکیٹ بھی ہے جہاں سے اپنی من پسند دلہن خریدی جا سکتی ہے۔ یہ منڈی بلغاریہ میں ہر سال تقریباً چار بار لگتی ہے۔ اس منڈی کو روما کی ایک کرسچن کمیونٹی کے لوگ سجاتے ہیں۔
اس کمیونٹی کے لوگوں کا بنیادی پیشہ مٹی کے برتن بنانا ہے لیکن اس کے ساتھ ان کی بیٹیاں بھی ان کی کمائی کا اچھا خاصا ذریعہ ہیں۔ اس کمیونٹی کی لڑکیاں جیسے ہی ٹین ایج میں قدم رکھتی ہیں ان کے والدین لڑکیوں کو سکول سے نکال دیتے ہیں اور ان کو گھر میں اپنی نگرانی میں رکھتے ہیں کہ کوئی اور ان کی لڑکی چرا کر بیچ نہ دے۔
آج سوشل میڈیا نے جہاں لوگوں کے درمیان فاصلے کم کر دیئے ہیں اور کمیونیکیشن کو ورچؤل بنا دیا ہے، اس کمیونٹی میں آج بھی لڑکیوں کو اپنی والدین کی اجازت اور ان کی نگرانی کے بغیر کسی مرد سے ملنے اور بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، یہ لڑکوں سے صرف منڈی والے دن ہی ملتی جلتی ہیں اور ان سے باتیں کرتی ہیں تاکہ وہ انہیں شادی کے لئے پسند کر سکیں اور ان کے والدین کو اچھی قیمت ادا کر سکیں۔
چونکہ ان لوگوں میں تعلیم کا فقدان ہے، اس وجہ سے یہ سالوں پرانے رواج کو ابھی تک سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ لڑکیوں کو پراپرٹی سمجھ کر ان کی قیمت لگائی جاتی ہے اور ان کی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔
منڈی والے دن لڑکیاں حسین لباس زیب تن کرتی ہیں، اچھا سا میک اپ کرتی ہیں اور زیورات پہن کر اپنے والدین کے ساتھ جاتی ہیں۔ وہاں پر خریدار لڑکے بھی آئے ہوتے ہیں جو کہ سونے کے زیورات پہن کر آتے ہیں تاکہ لڑکیوں کو ایمپریس کر سکیں۔
پورا دن ایک میلہ لگا رہتا ہے، کھانا پینا، گپ شپ اور ناچ گانے کے ساتھ ساتھ بارگیننگ بھی چلتی رہتی ہے۔ لڑکیوں کی مائیں بھی نت نئے جوڑے پہن کر اپنی بیٹیوں کے ساتھ آتی ہیں اور فخر محسوس کرتی ہیں کہ ہماری بیٹیاں کمیونٹی کی روایات کو ادا کرنے کے قابل ہو گئی ہیں۔
چھوٹی عمر اور خاص طور پر کنواری لڑکیوں کی قیمت زیادہ لگائی جاتی ہے جبکہ وہ لڑکیاں جو بیس سال سے زیادہ عمر کی ہوتی ہیں ان کی قیمت عمر کے لحاظ سے کم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح خوبصورتی کے ساتھ بھی دلہن کی قیمت زیادہ ہو جاتی ہے۔ ایک اوسط دلہن کی قیمت ڈھائی سو سے تین سو ڈالرز تک ہوتی ہے۔
یہاں ایک بات اور قابلِ ذکر ہے کہ جو لڑکے خریداری کے لیئے آتے ہیں وہ بھی اسی کمیونٹی کے ہوتے ہیں لیکن دوردراز علاقوں میں رہ رہے ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ کمیونٹی سے باہر شادی کو قبول نہیں کیا جاتا کیونکہ اس طرح کرنے سے ان کی کمیونٹی بڑھ نہیں پائے گی۔
جہاں دنیا انسانی حقوق کی بات کرتی ہے وہاں یہاں انسانی حقوق کو نہایت ہی شائستگی کے ساتھ پامال کیا جاتا ہے۔ ہر انسان کو اپنا جیون ساتھی چننے کا حق حاصل ہے لیکن ایک بے جان چیز کی طرح پیسوں کے عوض جیتی جاگتی لڑکیوں کو بیچ دینا انسانی حقوق کے استحصال کے مساوی نہیں تو اور کیا ہے؟