ٹی این این ری برانڈنگ کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
سید نذیر آفریدی
ٹرائبل نیوز نیٹ ورک کی حالیہ دنوں میں ”ری برانڈنگ” کی گئی ہے اور ٹی این این کے سامعین، قارئین اور ناظرین کے ذہنوں میں شاید اس حوالے سے سوالات ابھر رہے ہوں، اسی لئے ضروری سمجھا کہ اس حوالے سے کچھ سطور رقم کی جائیں۔
سب سے پہلے تو یہ چیز ذہن نشین رہے کہ برانڈنگ کسی بھی کمپنی یا ادارے کی ایک شبیہہ ہوتی ہے جو وہ اپنے صارفین یا آڈینس کے ذہنوں میں پیدا، قائم اور پھر اسے مستحکم کرتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر آڈینس یا صارفین کے ساتھ کسی ادارے کے تعلق کو یا ان کے ذہنوں میں اس ادارے کی مخصوص شناخت کی تخلیق کو برانڈنگ کہتے ہیں۔ عموماً یہ کمپنی کے لوگو، وژوول ڈیزائن، مشن اور ”ٹون آف وائس” پرمشتمل ہوتا ہے۔
یہ تو ہو گئی برانڈنگ کی ایک مختصر تعریف، اب آتے ہیں اس جانب کہ ٹی این این کو ازسرنو برانڈنگ کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
ایسا ہے کہ اس سے قبل جو ٹی این این کی برانڈنگ تھی، ہمارا جو لوگو تھا، جو کلر تھا، اس سب کے معانی مختلف تھے جبکہ وقت کے ساتھ ساتھ ٹی این این ارتقاء پذیر ہوتا گیا، شروع شروع میں ہم بنیادی طور پر ریڈیو تھے اور ہمارا جو زیادہ سے زیادہ ٹارگٹ تھا وہ قبائلی علاقہ تھا، جہاں پر زیادہ تر ریڈیو ہی سنا جاتا تھا، تو اسی وجہ سے ہمارا لوگو بھی اسی علاقے کی نمائندگی کرتا تھا، اس میں پہاڑ اور انٹینا لگایا تھا ہم نے، لیکن چونکہ 2018 میں اور اس کے بعد ہم زیادہ ”ڈیجیٹل فرسٹ” ہو گئے، ہم زیادہ کام ڈیجیٹل کانٹینٹ پر کرنے لگے، اب بھی ڈیجیٹل رپورٹنگ پر ہم زیادہ کام کرتے ہیں تو اسی وجہ سے ہمیں محسوس ہو رہا تھا کہ ہمارا لوگو اب اس طرح سے ہماری عکاسی نہیں کر رہا۔
اسی طرح ہمارا کلر بھی جو تھا وہ درہ خیبر کی نمائندگی کر رہا تھا، خاکی رنگ کے پہاڑ، یہ خاکی رنگ ہم استعمال کر رہے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہمارا ٹی این این بہت چینج ہوا، اس میں ایک تبدیلی یہ آئی کہ ہم قبائلی علاقوں سے نکل کر پہلے خیبر پختونخوا کی طرف آئے اور آج پورے پاکستان میں ہم کام کرتے ہیں، اور صحافیوں کو مختلف قسم تربیتی کورسز کرواتے ہیں۔
دوسرا بڑا چینج جو آیا وہ یہ ہے کہ اس سے قبل خواتین اور جو دیگر متنوع گروہ ہیں ان پر ہمارا زیادہ فوکس نہیں تھا۔ اب ہمارا فوکس خواتین پر ہے، ہم نے زیادہ تر خواتین رپورٹرز کو رکھا ہوا ہے، انہیں ہم ٹریننگ دیتے ہیں، ان سے کانٹینٹ پروڈیوس کرواتے ہیں، تو ضروری یہ تھا کہ ٹی این این کی جو یہ نئی حقیقتیں ہیں ان سب کی عکاسی ہو اس کے کلر میں، فونٹ میں اور اس کے لوگو میں، تو لوگو کو ہم نے چینج کر لیا، اور اب یہ جو لوگو آپ کو نظر آ رہا ہے، اس میں جو یہ دائرہ سا ہے، اس کا مطلب کمیونٹی/نیٹ ورک ہے، اس کے معنی شمولیت کے بھی ہیں اور اس کے علاوہ یہ تنوع کا بھی عکاس ہے۔
اور یہ نیٹ ورک جو ہے یہ پھیل رہا ہے، ٹی این این مسلسل نئی منزلیں طے کر رہا ہے اور دیگر علاقوں کی جانب پھیل رہا اور آگے کی جانب محو سفر ہے۔
اس میں جو یہ ”پیرامڈ” یا اہرام ہیں ان کے تین معانی ہیں یا یوں سمجھ لیں کہ یہ تین چیزوں کی عکاسی کرتے ہیں جن میں سے ایک تو ٹرائبل یعنی قبائلی ہے، دوسرے اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ ہم قابل بھروسہ ہیں، ہمارا قاری یا صارف ہم پر اعتماد کر سکتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ٹی این این مستحکم بھی ہوتا جا رہا ہے۔
اسی طرح یہ ڈارک بلیو کلر بھی ہماری نمائندگی کرتا ہے، اب ہم اس قبائلی علاقے پر، خاکی رنگ جس کا نمائندہ ہے، فوکس کے ساتھ ساتھ اس ملک، سماج اور اس دنیا کی نئی جہتیں ڈھونڈنے نکلے ہیں، اسی طرح اس رنگ کے معانی مقامی، عمومی اور قبائلی خبریں بھی ہیں۔
تو ہر لیول پر ٹی این این میں تبدیلی آئی ہے، ٹی این این میچور ہو گیا ہے اس لئے ہم نے ضروری سمجھا کہ ہم ٹی این این کی شناخت کو بھی تبدیل کریں کیونکہ جو پرانی شناخت تھی وہ ہماری موجودہ حقیقتوں کی عکاس نہیں تھی۔
دوسری بات یہ کہ اب ہمارا یہ لوگو تمام پلیٹ فارمز پر ایک جیسا ہو گا، یہ ایک ہی شناخت ہو گی، ہر جگہ ایک وائس ہو گی، ٹون وائس جو ہے وہ ایک ہو گی، ہر جگہ یہ یکساں ہو گا اس کا لوگو، اس کا کلر، اس کا فونٹ سائز اور اس کی سوچ، ٹی این این کی جو پالیسی ہے اس کی ہر جگہ، تمام پلیٹ فارمز پر یکساں عکاسی ہو گی، تو یہی وجہ تھی ہم یہ چینجز لے کر آئے۔
دوسرے یہ لوگو، ہماری یہ جو نئی شناخت ہے اس کی ڈیزاننگ میں ہم نے اپنے رپورٹرز کو انگیج کیا، ان کا ”اِن پُٹ” لیا، اس میں جو زنانہ اور مردانہ آڈینس ہے، ان کا بھی ہم نے ”اِن پُٹ” لیا ہے، اس سے قبل جو ہم نے اپنی برانڈنگ یا اپنی شناخت تخلیق کی تھی وہ صرف ‘کو فاؤنڈرز’ (شریک بانیوں) کی سوچ تھی، لیکن اس دفعہ ہم نے اپنی پوری ٹیم، اپنے رپورٹرز، اپنی آڈینس بشمول خواتین کے، ہم نے ان سب کو آن بورڈ لیا، ان کا فیڈبیک لیا کہ ہم اپنی اس نئی شناخت کو کس طرح تخلیق کریں، تو ہماری اس نئی شناخت کی تخلیق کا عمل بذات خود بھی ‘انکلیسو’ ہے۔
اور ہماری انکلیسوٹی صرف خواتین تک محدود نہیں ہے بلکہ ہم افغان پناہ گزینوں کو بھی میڈیا میں پروموٹ کر رہے ہیں، ان کو سٹیزن جرنلزم کی ٹریننگ دے رہے ہیں، ان کے ایشوز کو، انہی کے زریعے بھی، اجاگر کر رہے ہیں، ان کے ساتھ کام کر رہے ہیں، خواجہ سراؤں کو بھی ہم آگے لے کر آئے ہیں جس کی زندہ مثال ثوبیہ خان ہیں جو ٹی این این کے ہفتہ وار شو کی میزبانی کرتی ہیں جو ہمارے مقبول ترین شوز میں سے ایک ہے۔
اسی طرح دیگر جو مذہبی اقلیتیں ہیں یا جو خصوصی افراد ہیں جن کی میڈیا میں نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے، ہم ان کو بھی آگے لے کر آ رہے ہیں، ان سب کو بھی ہم خصوصی توجہ دیتے ہیں، تو ٹی این این پسماندہ طبقات یا لوگوں کا ایک طرح سے نمائندہ ہے اور ہماری یہ نئی شناخت ان ساری چیزوں کی عکاسی کرتی ہے۔
آخر میں ایک بار پھر عرض کرتا چلوں کہ ہماری جو پرانی شناخت تھی وہ محدود تھی، اس حوالے سے ادارے/سٹاف کے ساتھ ساتھ آڈینس میں بھی ایک طرح کی کنفیوژن پائی جاتی تھی، خصوصاً سٹاف مشن سٹیٹمنٹ، مقصد اور وژن کے حوالے سے ابہام کا شکار تھا اور تقریباً ہر ساتھی کے نزدیک اس کے مختلف معانی تھے، لوگ یا آڈینس بھی کنفیوژ تھے کہ ٹی این این کا لوگو کیا ہے، کلر کیا ہے، کبھی کلر تو کبھی لوگو تو کبھی ویب سائٹ چینج ہوتی رہتی تھی، اب امید ہے کہ یہ کنفیوژن ختم ہو جائے گی، اندرونی اور بیرونی دونوں سطح پر، اب سٹاف یا آڈینس کو ٹی این این کو سمجھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔
ہم امید کرتے ہیں کہ اس شناخت کے ساتھ ٹی این این نہ صرف مقامی اور ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک برانڈ کے طور اپنی پہچان کو مزید مستحکم کرے گا۔
نوٹ: مضمون نگار ٹرائبل نیوز نیٹ ورک کے ڈائریکٹر اور شریک بانی ہیں۔