کالاباغ کا وہ بازار جہاں صدیوں سے سورج کی روشنی نہیں پڑی
تقریباً آٹھ ہزار نفوس پر مشتمل اگر اس جگہ کو حقیقی طور پر اندھیر نگری کہا جائے تو غلط نہ ہو گا
حمیرا علیم
اگر ہم کسی بھی شہر کے پرانے حصوں میں جائیں تو گلیاں نہایت تنگ اور گھر چھوٹے اور اونچے ہیں جیسے کہ راولپنڈی کی باڑہ مارکیٹ، لاہور کی شاہ عالمی اور اعظم مارکیٹس؛ ان جگہوں پر دو انسان بمشکل چل سکتے ہیں۔ ان گلیوں میں موجود عمارات بھی سالوں پرانی طرز تعمیر پر مشتمل ہیں۔ دو یا تین منزلہ عمارات کے جھروکے لکڑی سے بنے ہیں اور کمرے تنگ ہیں۔
شاہ عالمی دروازہ مغل دور حکومت میں تعمیر کیا گیا اور یہ اندرون شہر کے راستوں پر تعمیر شدہ تیرہ دروازوں میں سے ایک ہے۔ جس علاقے میں یہ دروازہ واقع ہے وہ تاریخی لحاظ سے انتہائی اہم ہے اور یہاں کئی یادگاریں، حویلیاں اور قدیم بازار واقع ہیں۔ لاہور کی قدیم شاہ عالم مارکیٹ یہیں واقع ہے۔ اس دروازہ کے اندر تقسیم برصغیر سے پہلے ہندو بڑی تعداد میں آباد تھے اور تمام کاروبار ان کے ہاتھوں میں تھا۔
شاہ عالمی گیٹ شہنشاہ بہادر شاہ کے نام پر رکھا گیا۔ آزادی کی تحریک کے دوران اس گیٹ کو جلا دیا گیا اور اب بس اس کا نام باقی ہے۔ اس گیٹ کے قریب لاہور کی بڑی اور بہترین شاہ عالم مارکیٹ موجود ہے کیونکہ اس گیٹ کو دوبارہ تعمیر نہیں کیا جا سکا۔ شہر قدیم کے جنوب کی سمت موچی دروازے اور لوہاری دروازے کے درمیان شاہ عالمی دروازہ واقع ہے۔
ایک روایت کے مطابق یہ دروازہ اورنگزیب عالمگیر کے بیٹے اور جانشین محمد معظم شاہ کے نام سے موسوم ہے جس کی وفات لاہور میں ہوئی تھی۔ قبل ازیں اس دروازے کو کسی اور نام سے پکارا جاتا تھا۔
ایک اور روایت کے مطابق اس دروازے کا پرانا نام بھیر والا دروازہ تھا۔ کنہیا لال تاریخ لاہور میں اس دروازے کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ”چند دنوں کے لیے بادشاہ لاہور آیا تو اس نے چاہا کہ اکبر بادشاہ اپنے جدّ اعلیٰ کی طرح ایک دروازہ اس شہر میں اپنے نام سے موسوم کرے اور اپنے رونق افزا ہونے کی یادگار لاہور میں چھوڑ جائے۔ اس نے یہ تجویز قائم کر کے منادی کرا دی کہ آئندہ یہ دروازہ شاہ عالمی پکارا جائے گا۔ چنانچہ اس روز سے آج تک شاہ عالمی دروازہ کہلاتا ہے۔”
انگریز دور میں اس دروازے کی پرانی عمارت کو گرا کر از سرنو تعمیر کیا گیا تھا اور محققین کے مطابق اس دروازے کی وضع قطع پرانی عمارت جیسی ہی تھی یہاں کئی یادگاریں، حویلیاں اور قدیم بازار واقع ہیں۔ لاہور کی قدیم شاہ عالم مارکیٹ یہیں واقع ہے۔ اس دروازہ کے اندر تقسیم برصغیر سے پہلے ہندو بڑی تعداد میں آباد تھے اور تمام کاروبار ان کے ہاتھوں میں تھا۔
ایسا ہی ایک بازار کالا باغ کا ہے جسے اندھیری گلیاں کہا جاتا ہے۔ اس میں درجنوں گلیاں دو ست تین فٹ چوڑی ہیں۔ یہاں کے بالائی اور زیریں زیادہ تر مکانات لکڑی اور گارے سے ہندوؤں کے بنائے ہوئے ہیں جن کا قدیمی تعمیری ڈھانچہ ابھی تک موجود ہے جبکہ کچھ ہندو دور کے بوسیدہ جالے لگے دروازے تو ابھی تک بند ہیں۔ ان گلیوں کے اوپر چھت بھی ڈالی گئی ہے۔ بعض چھتیں تو اتنی نیچے ہیں کہ چلنے والوں کو سر جھکا کر گزرنا پڑتا ہے۔
تقریباً آٹھ ہزار نفوس پر مشتمل اگر اس جگہ کو حقیقی طور پر اندھیر نگری کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کیوں کہ آج تک یہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچ پائی ہے۔ شاید یہاں سے تازہ ہوا کا گزر بھی بڑی مشکل سے ہوتا ہو لیکن اس کے باوجود بھی ان کے گلیوں کے اندر زندگی رواں دواں ہے؛ یہاں پر مساجد، مزار، مدرسے اور دکانیں قائم ہیں۔ یہاں کے باسیوں کو دن کی روشنی میں بھی لائٹ جلانی پڑتی ہے جبکہ تاریخی حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ کبھی دریا کی وجہ سے رہائشی علاقہ ہونے کے ساتھ تجارتی مرکز بھی تھا۔ یہاں غلے اور سونے کا کاروبار کیا جاتا تھا جس کی وجہ سے چور اور لٹیرے گھوڑوں پر آ کر یہاں لوٹ مار کرتے جن سے لوگ بہت خوف زدہ اور تنگ تھے یہی وجہ تھی کہ ان گلیوں کو آج سے تقریباً دو صدی قبل بیرونی گھڑ سوار لٹیروں سے بچانے کے لیے، یہاں کے ہندو راجہ سلاگر نے یہاں بسنے والوں کی حفاظت کی غرض سے ان پر چھت بھی ڈلوا دی تھی۔
چھتیں اتنی نیچی اور گلیاں اتنی تنگ رکھیں کہ ان میں کوئی گھڑسوار داخل نہ ہو سکے جبکہ داخلی اور خارجی گیٹ بھی نصب کیے گئے اور اس دور میں تاریکی کو دور کرنے کے لیے گلیوں میں دیواری چراغ دانوں میں دیپ جلائے جاتے تھے جو اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
قیام پاکستان سے قبل یہاں کی گلیوں میں کاروبار عروج پر تھا۔ ہندو مسلمان اکٹھے زندگی بسر کرتے تھے اور اس وقت سے اس کا نام ‘تنگ بازار’ پڑ گیا تھا۔