بلاگزتعلیم

تعلیم حاصل کرنے کی خواہش اور بوڑہ کی لڑکیوں کے مرجھائے ہوئے چہرے

 

شمائلہ افریدی

"میں بہت پڑھنا چاہتی ہوں، آپ مجھے زیادہ پڑھایا کرے، میری ریڈنگ رائٹنگ اسکلز بہت کمزور ہے، لکھنے کا زیادہ کام دیا کرے”
یہ الفاظ بوڑہ سے تعلق رکھنے والی اقصی افریدی کے ہے جو مجھے راستے میں اس وقت ملی جب میں اسکول سے واپس ارہی تھی۔ بطور استانی عہدہ سنبھالنے کا یہ میرا پہلا دن تھا، اقصی نے بتایا کہ ہمیں اسکول میں وہ ماحول نہیں ملا جو ہونا چاہیے تھا۔ ہم پڑھائی میں انتہائی کمزور ہیں ہم پڑھنا چاہتے ہیں علاقے میں ناقص تعلیمی نظام نے ہمارے مستقبل پر منفی اثرات ڈالے ہیں۔ میں اسکی باتیں سن رہی تھی اور یہ صرف اقصی کی شکایات نہیں تھی بلکہ یہاں پر بہت ساری لڑکیوں کے یہی شکوے تھے۔

 

صحافت اور ٹیچنگ جاب

پڑھائی مکمل کرنے کے بعد میرا پہلا مقصد اپنے علاقے میں صحافت کرنا تھا، یہ ایک بہترین شعبہ ہے جسکے زریعے میں حسن خیل سب ڈویژن میں ان مسائل کو رپوٹنگ ارٹیکلز اور بلاگز کے زریعے اجاگر کررہی ہوں جو لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ جرنلزم کرتے وقت میرا ٹیچنگ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا کیونکہ دو جگہ کام کرنا میرے لئے مشکل تھا لیکن جب اپنے علاقے میں تعلیمی پسماندگی دیکھی تو ٹیچنگ جاب کیلئے اپلائی کیا اور میری ڈبل شفٹ اسکول میں پوسٹنگ ہوگئی۔ مجھے لگا کہ شاید میرے علاقے کو مقامی ٹیچرز کی ضرورت ہے جو لڑکیوں کو معیاری تعلیم دے سکے۔
تعلیم بھی ضروری ہے۔

جب پہلے دن اسکول گئی کافی خوش بھی تھی اور گھبراہٹ بھی تھی کہ میں جرنلزم کے ساتھ ٹیچنگ کربھی سکو گی یا نہیں۔ اسکول میں چند لڑکیاں داخلہ کیلئے ائی تھی۔ میری والدہ نے مجھے کہا کہ مدارس چلتے ہے اور ان کو داخلہ مہم کے بارے میں بتاتا چاہیے تاکہ ہرکسی کو معلوم ہوسکے۔ مدارس میں بہت ساری لڑکیاں علم حاصل کررہی تھی میں نے انکو علم کے ساتھ تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے اگاہی دی ان کو کہا کہ ان انکے شکایات کا ازالہ ہوچکا اب وہ ائے اور داخلہ لے مزید پڑھائی کو جاری رکھے۔

بوڑہ میں لڑکیوں کا معیاری تعلیم سے محرومی 

پہلے دن ہم کئی گاوں گئے مدارس میں گئے والدین کو اپنے بچیوں کو سپورٹ کرنے کا کہا۔ ایک جرنلسٹ ہونے کے ناطے میں محسوس کررہی تھی کہ زیادہ تر لڑکیوں کے چہرے مرجھائے ہوئے تھے ان کے چہروں پر مایوسی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اب کیا فائدہ ہم پر تو پڑھنے کا وقت گزر چکا ہے ہمارے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے۔ ہمارے ساتھ حکمرانوں نے بھی ظلم کیا ہے اور اسکول میں بھی معیاری تعلیم سے محروم رہے ہیں۔ کاش یہ سب پہلا ہوا ہوتا  لیکن میں نے انکو کہا کہ اپ ائے میں اپکو پڑھاو گی اپکو وہ تعلیم دوں گی جن سے وہ سب محروم رہی ہیں۔

اقصی کی طرح  ہر بچی کے بہت سے خواب تھے لیکن ان کو مواقع میسر نہیں ہیں۔ ان کے بڑے بڑے خواب ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ انے والے دور میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کی کتنی اہمیت ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ گاوں کی تمام لڑکیوں کو معیاری تعلیم مل سکے جو ان کا حق ہے۔ میں ان کو ایسا ماحول دوں جو پہلے کسی نے نہیں دیا۔ اس مشن میں میری والدہ میرے ساتھ تھی جو مجھے سپورٹ کررہی تھی میرا حوصلہ بچیوں کا حوصلہ بڑھا رہی تھی۔ اللہ سے دعا ہے کہ لوگوں کے جو توقعات مجھ سے ہے میں ان توقعات پر پورا اتر سکوں کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ استاد کو شاگردوں کی تربیت میں اس طرح مگن رہنا چاہیے جیسے ایک باغبان ہر وقت اپنے پیڑ پودوں کی نگہداشت میں مصروف رہتا ہے۔۔۔۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button