پری چہرہ مزار خوفناک اور آسیب زدہ ماحول میں تبدیل
شازیہ نثار
تاریخ جبر سے دبائی تو جا سکتی ہے مگر مٹائی نہیں جا سکتی اور ایک ایسی ہی تاریخ پشاور کے شہر کے بیچ و بیچ جنگل نما قبرستان کی بھی ہے، ایران کے شمال مشرقی صوبے خراسان سے تعلق رکھنے والے ترکمن قبیلہ کے سپہ سالار اور افغان بادشاہ نادرشاہ افشار کی محبوب اہلیہ ملکہ پری چہرہ کے اس مزار کو بھی ماضی کے دھول تلے دبایا گیا ہے 1736 سے 1747 تک کے فتوحات کے سفر میں اس جنگجو سردار نے 1738کو قندھار افغانستان کو فتح کرتے ہوئے غزنی، کابل ،پشاور سندھ اور لاہور کوفتح کیا اور فتوحات جاری تھے کہ پشاور میں پڑاؤ کے دوران بادشاہ کی محبوب اہلیہ پری چہرہ پشاور میں بیمار پڑگئی اور خالق حقیقی سے جا ملی اور یوں ملکہ پری چہرہ کو شاہی اعزاز کے ساتھ اس وقت کے شاہی باغ میں سپردخاک کرکے بادشاہ نادر شاہ افشار کچھ خاص خادم اور خادمائیں یہاں چھوڑ کر فتوحات کے لیے آگے نکل گیا اور یوں ملکہ کے ساتھ رہ جانے والے سرپوش کے نام سے ان خادموں کی نسل اب بھی پشاور میں آباد ہے۔
موجودہ کوہاٹی گیٹ میں واقع ملکہ پری چہرہ کا خستہ حال مقبرہ آج گندگی کا ڈھیر بن چکا ہے۔ مقبرے میں جانے کا ٹوٹے دروازہ کے سامنے تجاوزات کی بھر مار تھی تو پری چہرہ کے اس مزار کو دیکھنے کی حسرت سے دیوار پھلانگ کر جانا پڑا ابھی نیچے اتری ہی تھی کہ کسی ڈرامے اور خوفناک فلم کا آسیب زدہ اور بڑے بڑے درخت آسمان کی طرف جا کے ان درختوں کے پرانے شاخ اس طرح زمین کی طرف آ کر قبروں کو یوں آغوش میں لیے تھے کہ رونگھٹے کھڑے ہو گئے اور قدم اٹھاتے ساتھ ہی پاؤں سالوں سے مزار میں پھینکیں گئے کچرے اورجھاڑیوں میں دھنس گیا۔
یوں لگ رہا تھا کہ جیسے میں شہر کے دل کوہاٹی بازار میں نہیں بلکہ کسی دشت کے گمنام صحرا میں موجود ہوں۔ بدقسمتی سے تاریخی شہر پشاور کے خوبصورت تاریخ کےاس ٹکڑے کو قبضہ مافیا نے کئی دھائیوں سے چنگل میں رکھا اور ارد گرد کے کئی مرلے زمین تو قبضہ ہوئی مگر پری چہرہ کے مزار اور اس کے ساتھ چند خادماؤں کی قبروں کو قبضہ مافیا سے چھڑانے کیلئے پشاور کے تاریخ کے محافظ اخونزادہ مظفر نے27 سال قانونی جنگ کے بعد ملکہ پری چہرہ کے مزار کوعدالت کے ذریعے کاغذی ثبوتوں سے ثابت کیا اور یوں پشاور کے اس وقت کے شاہی باغ میں دفن حسین ملکہ پری چہرہ کے مزار کو تسلیم کر کے حکومت کی جانب سے اس مزار کی دیوار پر ملکہ اور اس کی تاریخ تو آویزاں کر دی گئی مگراس بات کو بھی کئی سال گزر گئے لیکن اب تک نہ تو اس مزار کے سامنے خستہ حال دیوار کو ہٹایا گیا اور نہ ہی پرانے ٹوٹے پوٹے دروازے کو کھولا گیا ہے جو شاید اب کھل بھی نہ سکیں اور ستم تو یہ ہے کہ ایرانی بادشاہ کی محبوبہ کے اس قبرستان میں موجود صدیوں پرانے پھیلے درخت مکھڑیوں کے جالوں میں جکڑے قبر کو اپنے نیچے دباۓ ہیں بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ شاہی باغ میں دفن خوبصورت پری کا یہ مسکن اب خوفناک اور آسیب زدہ ماحول کا منظر پیش کرتا ہے۔
محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق ضلع انتظامیہ کو بارہا خط لکھ چکے ہیں اور کوشش ہے کہ دوبارہ کسی کو بھی قبضہ کرنے نہ دیا جائے اور قانونی طور پر جلد اس مقبرے کو دوبارہ تعمیر کر کے پشاور کے تاریخ کو محفوظ کردینگے۔
شہر پشاور میں جہاں بھارت کے فلم انڈسٹری پرراج کرنے والے فنکاروں کی تاریخی مکانات بھی خستہ حالی کے شکار رہے ہیں تو وہیں فصیل شہر پشاور کے16 تاریخی دروازے بھی اب ختم ہو کر رہ گئے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اگر اس تاریخی ورثے کو سنبھالا نہ گیا تو آیندہ چند سالوں میں پشاور کے تاریخی مقامات کو صرف کتابوں کے صفحوں میں ڈھونڈنا پڑے گا۔
تاریخ کے جھروکوں کو کھو لا جاۓ توپشاور کا حسن رہا ہے کہ یہاں مختلف اقوام کے لوگ آباد ہوتے رہے ہیں اور یوں پشاور پاکستان یا برصغیر کا ہی نہیں بلکہ جنوب مشرقی ایشیا کا قدیم ترین اور زندہ تاریخی شہرہونےکا اعزاز بھی رکھتا ہے۔