شازیہ نثار
تعلیم ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے لیکن کیا ہماری ریاست اس آئینی ذمہ داری سے خوش اسلوبی کے ساتھ عہدہ برآء ہو رہی ہے؟
یہ ایک ایسا بنیادی سوال ہے جس کا جواب قیام پاکستان سے آج تک کے سفر میں تلاش کیا جائے تو حکومتیں کٹہرے میں بطور مجرم کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔ کسی ملک و قوم کی اس سے بڑھ کر بدقسمتی کوئی دوسری نہیں ہو سکتی کہ اُس کے تعلیم و تحقیق اور ہنر و تربیت جیسے کلیدی شعبے خاطرخواہ حکومتی توجہ سے محروم ہوں۔
خیبر پختونخوا میں بھی 9 سال تک تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد کچھ زیادہ نہیں بس صرف 306 سکول ہی تو غیرفعال ہیں۔ پہلی بار تعلیمی ایمرجنسی 2013 سے 2018 تک رہی اور سابق وزیر تعلیم نے جاتے وقت کہا کہ 99 فصید تعلیمی نظام بہتر ہو گیا ہے۔
لیکن پھر جانے کیا ہوا کہ اک بار پھر پھر یہ ایمرجنسی اگست 2018 سے دوبارہ نافذ ہوئی۔ لیکن پھر بھی نجانے کیوں لاکھوں بچے اپنے بنیادی حق سے محروم ہیں۔
ڈائریکٹر محکمہ تعلیم حافظ ابراہیم کہتے ہیں محکمہ تعلیم نے ایجوکیشن سسٹم میں بہتری لانے کیلیے کئی منصوبے شروع کئے ہیں؛ داخلہ مہم چلائی جاتی ہے، ‘تعلیم گھر کی دہلیز’ کے نام سے ایک مہم میں اساتذہ گھر گھر جا کر بچوں کو اسکول لے کر آتے ہیں، غیرسرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر تعلیم کے فروغ کیلئے پراجیکٹس بھی جاری ہیں، دن رات کام کر رہے ہیں بند سکولوں کو فعال بنانے کے لیے، اور محکمہ تعلیم نے گزشتہ چند سالوں کے دوران درجنوں نئے سکولز بھی تعمیر کیے ہیں۔
مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ پرانے سکول کو فعال بنانے کی بجائے نئے اسکولز بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا حکومت کے تعلیم کے فروغ کے سب منصوبے صرف کاغذوں اور سوشل میڈیا کی حد تک ہیں؟
اگر محکمہ، حکومت سنجیدہ ہے تو صوبے کے 306 پرائمری، مڈل اور ہائی سکول غیرفعال کیوں ہیں؟ جن میں 275 پرائمری، 27 مڈل اور 4 ہائی سکولوں کو ایمرجنسی اور سیاسی دعوؤں کے بعد بھی فعال نہیں بنایا جا سکا۔ غیرفعال سکولوں میں فی میل کے 173 پرائمری، مڈل اور ہائی سکولز بھی شامل ہیں۔
ایک طرف اگر قبائلی علاقہ ساؤتھ وزیرستان میں امن بحالی کے بعد بھی 90 سکول حکومتی توجہ کے منتظر ہیں تو دوسری جانب صوبہ کے پسماندہ علاقہ کوہستان کے 62 سکولز بھی بھوت بنگلوں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ کرم میں بھی 27 سکول استعمال نہیں ہو رہے۔ اورکزئی میں 20، لکی مروت میں 17، نارتھ وزیرستان میں 12، ایبٹ آباد اور بنوں میں 5، 5 سکولز غیرفعال ہیں۔
مگر حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ سیاسی تقسیم اور ووٹ کی کمی کی وجہ سے بھی سیاسی نمائندے ووٹ نہ ملنے والے علاقوں کو نظرانداز کر کے بیٹھے ہیں۔ اس وقت وزیر اعلیٰ کے حلقے سوات میں 3 اور وزیر تعلیم کے حلقے میں بھی 1 پرائمری سکول فعال نہیں ہے۔ ان غیرفعال سکولوں سے نہ صرف ہزاروں بچوں کے مستقبل کو داؤ پر لگایا جا رہا ہے جبکہ ان تعلیمی اداروں کو فعال بنانے سے کئی بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کو نوکریاں بھی مل سکتی ہیں۔