کچھ مرد عورتوں پر ہاتھ اٹھاتے ہیں، کیوں اٹھاتے ہیں؟
سدرہ ایان
سائیکالوجی کے مطابق اگر کوئی بندہ مایوس اور ڈپریسڈ ہے تو اس کے سامنے اس کی خوبیاں بیان کرو، اسے ہمت دو، اسے بتاؤ کہ زندگی کتنی خوبصورت ہے، اس کے سامنے اس کی زندگی کے خوبصورت دنوں کی یاد دلاؤ تاکہ وہ پھر سے جی اٹھے۔
موجودہ دور میں ہر انسان ڈپریسڈ ہے اور اسے ضرورت ہے کسی ایسے انسان کی جو اسے حوصلہ دلائے، اسے زندگی کی طرف واپس لائے، ہر دوسرے انسان کو اپنی زندگی سے محبت نہیں کیوں کہ اسے یہ بات کھائے جا رہی ہے کہ آگے کیا ہو گا میرا!
مشکلات ہر انسان کی زندگی کا حصہ ہیں لیکن ان مشکلات کے خوف کو اپنے ذہن پر اتنا سوار کرنا کہ اسے اپنی زندگی ہی پیاری نہ لگے تو اس کا مطلب، یہ شخص نفسیاتی مسائل کا شکار ہے۔ اس سے بہ آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے اردگرد نجانے کتنے لوگ ہیں جو نفسیاتی مسائل سے لڑ رہے ہیں۔
کچھ مرد عورتوں پر ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ کیوں اٹھاتے ہیں؟ کیوں کہ ان کے پاس اپنا سٹریس نکالنے کا یہی ایک طریقہ ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ عورت بھی آہستہ آہستہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہے لیکن سب سمجھتے ہیں کہ شوہر مارتا ہے اس لیے اداس ہے، اس کا شوہر بہت غیرمہذب آدمی ہے۔
لیکن یہ بات کسی کو سمجھ نہیں آتی کہ شوہر غیرمہذب نہیں، سٹریسڈ ہے۔ اور اس کی بیوی اداس نہیں نفسیاتی ہوتی جا رہی ہے۔ ڈپریشن کی مختلف اقسام ہوتی ہیں؛ کوئی اس کی کسی ایک قسم کا شکار ہوتا ہے تو کوئی کسی دوسری قسم کا لیکن ہم لوگ سمجھنے کے بجائے اسے اداسی، جن، بھوت پریت، تعویذ گنڈے اور جادو یا پاگل پن سمجھتے ہیں۔
ہمارے گھروں میں عام مسائل جن پر ہمارا دھیان جاتا ہی نہیں وہ کس حد تک نفسیات سے تعلق رکھتے ہیں اسی چیز کو سمجھنے کے لیے ایک آگاہی سیشن جو سیپ پاکستان جذبہ پروگرام کے تحت منعقد کیا گیا۔
سیشن میں پہلے ریسورس پرسن نصرت آرا نے خواتین پر ہونے والے تشدد یا ان کے خود کے ذہنی مسائل جن سے وہ خود انجانے میں مسائل پیدا کرتی ہیں، ان کے حوالے سے تفصیلی بات کی۔
اور اس کے علاوہ انھوں نے سائیکالوجسٹ نور جہاں صاحبہ کو مدعو کیا گیا تھا جو کہ عبدالولی خان یونیورسٹی کے سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ کی چئیرپرسن ہیں۔ انھوں نے انتہائی خوبصورت اور اچھے الفاظ میں آگاہی سیشن کے ساتھ ساتھ سیشن میں شریک خواتین کے مسائل کو سنا اور انھیں اچھے سے ٹریٹ کر کے انتہائی موثر مشورے دیئے۔
نور جہاں صاحبہ نے بتایا کہ ہمارے گھروں میں وہ افراد جنھوں نے خود کو کمرے تک محدود رکھا ہوتا ہے، گھر میں کوئی مہمان آئے تو ان سے ملنے سے یا ان کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں تو وہ بھی ایک قسم ذہنی مسئلے کا شکار ہوتے ہیں جن پر تنقید کرنے کے بجائے یا باتیں سنانے، دانٹ ڈپٹ کے بجائے ان کو سنا اور سمجھا جائے۔
انھوں نے بتایا کہ ایگریشن اور وائلنس دونوں الگ الگ چیزیں ہیں؛ گھر کی خواتین کو ڈرانا دھمکانا ایگریشن کہلاتا ہے لیکن جب ان پر ہاتھ اٹھتا ہے تو وہ وائلنس بن جاتا ہے۔ لیکن یہ صرف خواتین کے لیے نہیں اگر کسی مرد کو بھی ڈرایا دھمکایا جائے اس پر بھی وائلنس ہو جائے تو وہی چیز اس کے بھی ذہنی پریشانی کا باعث بن کر اسے ڈپریسڈ کرتی ہے۔
نور جہاں صاحبہ نے بتایا کہ کئی بیماریاں ایسی ہیں جو تقریباً ہر گھر کے کسی نہ کسی فرد میں پائی جاتی ہیں اور وہ بیماریاں ان کی زندگیوں سے دلچسپی ختم کر لیتی ہیں جیسے ڈپریشن، فیئر (خوف)، انزائٹی، سیلف سٹریم، او سی ڈی وغیرہ۔
وہ انسان جس میں جینے کی خواہش نہ ہو، جو کچھ کرنا نہ چاہے ، جو خود کو کمرے تک محدود رکھے، لوگوں سے ملنا جلنا بند کرے، فنکشن یا اس طرح کے تہواروں میں دلچسپی نہ لے تو وہ ڈپریسڈ ہے، وہ ناامید ہے، اور اسے آہستہ آہستہ زندگی کی طرف پھر سے واپس لایا جا سکتا ہے۔
اس طرح اگر فیئر یا خوف کی بات کریں تو اس میں انسان کام کرتا تو ہے لیکن اسے ڈر لگا رہتا ہے اور وہ ہر وقت کسی نہ کسی طرح خوف میں مبتلا ہوتا ہے کہ کہیں یہ نہ ہو جائے وہ نہ ہو جائے، پھر اگر ہم انزائٹی کی بات کریں تو اس کا تعلق تقریباً ہمارے فیوچر سے ہوتا ہے، ہم نے کچھ کیا بھی نہیں ہوتا پھر بھی ہمیں ڈر لگا رہتا ہے، وہ ڈر لوگوں سے، رویوں سے بھی ہو سکتا ہے، حالات سے بھی ہوتا ہے کہ کہیں ایسی آفت نہ آئے یا ویسی، کوئی ہمیں چھوڑ نہ دے۔ کسی سے انجانے میں نظر انداز ہوئے تو دل میں ڈر بیٹھ گیا کہ کہیں کسی نے اسے کچھ بتایا تو نہیں، کیوں اس نے مجھے نظرانداز کیا، کہیں کچھ ہوا تو نہیں ہے۔ انزائٹی میں ایسی ہی باتیں ہوتی ہیں جن پر ہم خود کو اندر سے ختم کر لیتے ہیں۔
سیلف اسٹیم کی بات کریں تو خود سے اعتماد اٹھ جاتا ہے جیسے مجھ سے نہیں ہو گا، فلاح بندہ کر لے گا میں نہیں کر پاؤں گی، اس میں انسان خود کو کمتر سا سمجھنے لگتا ہے چاہے لوگ اسے اس بات کا احساس دلائیں یا نہ دلائیں لیکن اس کے ذہن میں یہی بات ہوتی ہے کہ وہ نہیں کر پائے گام اس سے خود اعتمادی ختم ہو جاتی ہے۔
او سی ڈی (اوبسیسیو کمپلسیو ڈِس آرڈر ) میں انسان وہم میں مبتلا ہو جاتا ہے یا ہم اسے شک کی بیماری کہہ سکتے ہیں۔ اس میں ایک انسان پرفیکشنسٹ سا ہو جاتا ہے جسے ہر چیز کی فکر رہتی ہے کہ کہیں یہ چیز کم تو پڑ نہیں جائے گی، انساں بار بار چولہا دیکھتا ہے کہ کہیں کھلا تو نہیں رہ گیا، رات کو دروازہ بار بار چیک کرتا ہے کہ بند کیا ہے یا نہیں۔ یا اس میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان بار بار ہاتھ دھوتا ہے، کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگاتا، واش روم کے نلکے سے ہاتھ دھوئے تو اس ہاتھ سے پھر نلکا بند نہیں کرتا، وغیرہ شامل ہیں۔
یہ وہ ذہنی بیماریاں ہیں جو انسان سے زندگی کی امنگ چھین لیتی ہیں اور ہر گھر میں کوئی نہ کوئی بندہ ان میں سے کسی نہ کسی قسم کی ذہنی بیماری کا شکار ہوتا ہے، گھر کے دوسرے افراد کا فرض بنتا ہے کہ اسے واپس زندگی کی طرف لے آئیں، اسے وہ خوشیاں دیں جن کی محرومیت کی وجہ سے وہ خود کو تنہا کرتا جا رہا ہے۔
اپنے گھروں کا ماحول اتنا خشگوار بنائیں کہ بچے باہر سے زیادہ گھروں میں خوش رہیں، انھیں اتنا سپیس دیں تاکہ وہ دوسروں کی بجائے آپ کو دل کی باتیں بتائیں، ان کی مشکل کو سنیں، ان کی مدد کریں تاکہ وہ اپنے مسائل آپ سے چھپاتے نہ پھریں۔
ہمارے ہر گھر میں ذہنی مریض اور ڈاکٹر موجود ہیں لیکن ان کو خود کی اور ایک دوسرے کی پہچان نہیں ہوتی۔ جب ہر انسان اپنے گھر میں ڈاکٹر یا ذہنی مریض کو پہچانے، اس دن سے سب کچھ ٹھیک ہونا شروع ہو جائے گا۔