مردانہ اخلاق بمقابلہ زنانہ لباس
مہرین خالد
پاکستانی معاشرہ پردے کے نام پر صرف عورت کا منہ چھپانے، چادر سر پر اوڑھانے اور مرد اور عورت کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کے لئے جیسے ایک ڈنڈا لے کر اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ پردے کی اس ریس کا منصف یعنی سزا اور جزا طے کرنے والا بھی یہ معاشرہ خود ہی ہے۔ جبکہ اس یک طرفہ ریس کی ٹرافی، اخلاقی تربیت سے مبرا مرد ہی جیتتا ہے۔
کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ معاشرہ مردوں کی اخلاقی تربیت کی ریس کراتا!
ماشاءاللہ!
برصغیر پاک و ہند کے پدرشاہی معاشرے کی مردانہ آبادی کا اخلاق (یا بداخلاقی) براہ راست عورتوں کے لباس سے نتھی ہے۔ یہاں پائے جانے والے زیادہ تر مرد، عورتوں کے لباس کی کمی، لمبائی یا ساخت کے حساب سے عزت اور اخلاق کو اپنے پیمانے پر تولتے ہیں۔
کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ یونیورسٹی میں کلاس کے دوران ہماری استاد نے ایک سوال سب کے سامنے رکھا کہ "اگر آپ کو پاکستان میں کسی چیز پر پابندی لگانے کا موقع دیا جائے تو وہ کیا ہو گی؟” سوال تو سنجیدہ تھا مگر اس کا جواب طنز و مزاح والا ہو، یہ شرط تھی۔
میں نے بھی مزاح کے تالاب میں چھلانگ لگاتے ہوئے طنز کے تڑکے والا جواب دیا کہ "ان حضرات کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی ہونی چاہئے جو راہ چلتی خواتین کو دیکھ کر ماشاءاللہ کہتے ہیں۔”
بس جی، ہلکے پھلے طنز و مزاح کے اس تڑکے کے چھینٹوں سے میرے مردانہ کلاس فیلوز تو جیسے جھلس ہی گئے۔ یوں لگا جیسے راہ چلتی خواتین کو دیکھ کر ماشاءاللہ کہنا اخلاقی تربیت کا فقدان نہیں بلکہ ان کا بنیادی حق ہو جسے صلب کرنے کی بات کی جا رہی ہو۔
منہ سے کف اڑاتے میرے ساتھی لگے عورتوں کی کردارکشی کرنے، ٹھہرایا ان کے لباس کو مورد الزام کہ مرد تو بیچارہ پالنے میں پڑا انگوٹھا چوستا ہوا ننھا منھہ چوزہ ہے، یہ تو جادوگرنی عورت ہے جو ایسا لباس پہن کر نکلتی ہے کہ چوزہ بھی ماشاءاللہ کہے بنا نہ رہ سکے۔
مگر لباس کا عزت سے یا عزت کا لباس سے کیا تعلق؟ گویا مرد کا نفس اس قدر بے قابو ہے کہ اس کی نگاہ میں عورت انسان کی حیثیت میں نہیں بلکہ صرف لباس کی نوعیت کی وجہ سے قابل عزت ہو گی؟
عورتوں کی مردانہ عینک
المیہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت نے دنیا کو دیکھنے کے لئے جو چشمہ لگایا ہے وہ بھی مردانہ نظر کا ہے۔
عورت کو کبھی اپنی سوچ کے اظہار یا اس کی اہمیت کا اندازہ لگانے کا موقع نہیں ملا۔ وہ جس نظر سے دنیا کو دیکھتی ہے وہ مردانہ ہے۔
اپنی ہی ہم ذات اور اپنی ہی صنف پر تنقید میں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ حصہ لیتی ہیں۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کیونکہ عورت جانتی ہے کہ مردانہ معاشرے میں رہنے کے لئے اسی میں اس کی بقا ہے۔ عورت عورت کی دشمن نہیں ہے بلکہ وہ پدرشاہی ذہنیت ہماری دشمن ہے جو اسے اپنے جیسے دوسری قابل احترام عورت کے مدمقابل لا کھڑا کرتی ہے۔ عورت کو معاشرے میں رہنے کے لئے مرد کی تصدیق چاہیے۔ لیکن ایسا کیوں؟
کیونکہ ہم نے عورت سے اس کی اپنی ذات کے لیے سوچ کو ہی مفلوج کر کے ختم کر دیا ہے۔ معاشرے کی مختلف روایتوں میں الجھا کر ایک کٹھ پتلی بنا دیا ہے۔
مردوں کی تربیت عورتیں نہیں بلکہ پدرشاہی معاشرے میں عورتوں کی تربیت مرد کرتے ہیں۔
مرد کی زنانہ لباس سے شہوت
مجھے لان کے نت نئے پرنٹڈ سوٹ پہننا بہت پسند ہے۔
کچھ روز پہلے یونیورسٹی سے پہلے بازار گئی تو کچھ پرنٹ اچھے لگے تو خرید لئے، یونیورسٹی ساتھ لے گئی کہ واپسی پر ٹیلر کو دوں گی۔ مگر واپسی پر ٹیلر کی طرف جاتے ہوئے بیگ دیکھا تو سوٹ نہیں تھے۔ یعنی جلدی میں یونیورسٹی میں ہی بھول گئی تھی۔
دوسرے دن یونیورسٹی میں ہر جگہ دیکھ لیا مگر سوٹ نہیں ملے۔ کافی مہنگے تھے تو پریشانی ہوئی۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ میرے کچھ کلاس فیلوز نے سوٹ کہیں سنبھال کر رکھے ہیں۔ میرے بار بار پوچھنے پر بھی وہ مذاق کرتے رہے۔
کافی دیر تنگ کرنے کے بعد آخرکار میرے ایک "غیرت مند” کلاس فیلو نے، جس کو یوں تو لڑکیاں بہت پسند ہیں، کہا کہ تمارے سوٹ الماری میں کتابوں کے پیچھے چھپا کر رکھے ہیں۔
میں نے حیرت سے پوچھا چھپا کر رکھنے کی کیا تک ہے؟ تو موصوف عورت کے پردے کا تذکرہ کرنے لگے کہ "زنانہ کپڑے ایسے کھلے میں پڑے ہوں تو بہت شرمناک بات ہے اس لئے چھپا دیے تھے۔”
پہلی بات تو یہ کہ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ تھیلے میں بند زنانہ کپڑوں کو دیکھنے کے لئے تھیلا کھولتے وقت اپنی شرم نیند کی گولیاں کھلا کر کہیں سلا دی تھی کیا؟
دوسرا یہ کہ کیا مرد کا نفس اتنا بے لگام ہے کہ اس کے لئے صرف زنانہ شلوار سوٹ ہی کافی ہے؟
یہ وہی موصوف تھے جنہوں نے اپنی تمام غیرت بالائے طاق رکھ کر دو سال تک میری ایک دوسری کلاس فیلو لڑکی کے ساتھ رومانوی تعلق قائم کرنے کے لئے میرے دماغ کا فالودہ بنا دیا تھا۔
میرے لئے رومانس زندگی کا بہت ہی خوبصورت حصہ ہے، مگر یہاں بات منافقت کی ہو رہی ہے۔ بتائیے، ایسے مرد عورتوں کو شرم و حیا کی پٹیاں پڑھائیں تو پھر تو شرم بھی اپنا مقام کھو بیٹھے گی۔
عورت کی عزت کریں، اس کے لباس کی نہیں۔ عزت تو پھر عزت ہے چاہے چاردیواری میں کی جائے یا چاردیواری سے باہر۔ عورت کے کردار کی فکر کے بجائے مردوں کی تربیت کا پاس رکھ کر معاشرے کا اچھا فرد بنیے۔
آپ معاشرے میں عورت کے کردار کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
مہرین خالد ضلع بنوں سے تعلق رکھتی ہیں اور ٹی این این کے ساتھ بلاگر اور رپورٹر کی حیثیت سے منسلک ہے۔