پشاور: 2022 میں 22 خواتین غیرت کے نام پر قتل
شازیہ نثار
ایس ایس پی آپریشن کاشف آفتاب عباسی نے کہا ہے کہ غیرت کے نام پر خواتین کا قتل افسوسناک اور گھناؤنا جرم ہے اور پولیس کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسے ملزمان کے ساتھ تفتیش میں کوئی نرمی نہ کی جائے اور ایسے واقعات میں ملوث ملزمان کو ہر ممکن قانون کی گرفت میں لایا جا سکے؛ جبکہ سورہ ایک قبیح جرم ہے اور پولیس فورس نے ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے ویمن ڈسک قائم کیا ہے۔
بجا فرماتے ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ امسال، یعنی 2022 میں بھی صوبائی دارالحکومت پشاور میں اب تک 22 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے، جبکہ پولیس 36 ملزمان کو گرفتار کر کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج چکی ہے۔
19 جولائی 2022 کو تھانہ پھندو کی حدود جمیل چوک میں پسند کی شادی کرنے والی خاتون کو شوہر سمیت چچازاد بھائیوں نے چچی کی مدد سے فائرنگ کر کے قتل کیا۔
18 اگست کو تھانہ داؤدزئی کی حدود میں ایک غیرت مند بھائی نے اپنی دو سگی بہنوں اور ان کی سہیلی کو فائرنگ کر کے مار ڈالا اور پولیس کے مطابق قاتل نے اقبال جرم کرتے ہوئے بتایا کہ تینوں لڑکیوں کو غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتارا ہے۔
تھانہ ناصر باغ میں ایک اور حوا کی بیٹی کی لاش ملی اور پولیس تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ 25 سالہ بھائی نے بہن کو بدکرداری کے شبہ میں بےدردی سے قتل کر ڈالا۔
17 ستمبر کو تھانہ بڈبیر کی حدود میں ایک لاوارث خاتون کی لاش برآمد ہوئی جو بعد میں ایک معلمہ کی نکلی جس کو اپنے بہنوئی نے رشتے سے انکار پر قتل کر کے لاش کھیتوں میں پھینک دی تھی۔
مگر غیرت کے نام پر اس سفاکیت کا یہ سلسلہ ان واقعات پر ختم نہیں ہوا بلکہ پشاور کے 18 پولیس اسٹیشنوں میں درج مقدمات کے مطابق غیرت کے نام پر باپ، بھائی، شوہر یا پھر چچا کی کھوکھلی غیرت نے خواتین کی زندگی کے چراغ گل کر دیئے۔
ایک طرف جہاں معاشرے کی فرسودہ روایات نے غیرت کے نام پر 22 زندگیاں نگل لیں تو دوسری جانب اسی سال پشاور میں زبردستی کی شادیوں کے بھی 45 مقدمات درج ہوئے، یہی غیرت مند مرد کمزور لڑکیوں کو رشتے سے انکار پر زبردستی اغوا کر چکے اور پولیس 67 ملزمان کو گرفتار کر چکی ہے۔ تب ان نام نہاد غیرت مندوں کی غیرت نجانے کہاں سو جاتی ہے جب رشتے سے انکار پر تیزاب گردی اور اغواکاری پر اتر آتے ہیں یا پھانسی سے بچنے کیلئے اپنی ہی بیٹی، بہن اور بھتیجی کو ”سورہ” (ونی) کی بھینٹ چڑھا کر اسی معاشرے میں زندگی گزارتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ کائنات کے تمام رنگوں کو ملا کر عورت کا وجود تخلیق کیا گیا ہے، عورت ماں کی شکل میں ہو، بیوی کے رشتے میں ہو، بہن ہو یا پھر بیٹی، ہر روپ اور ہر رشتے میں عزت و وقار کی علامت، محبت، صبر، خلوص، وفا اور قربانی کا پیکر سمجھی جاتی ہے۔
مگر آج بنت حوا کے چہرے کے نقوش وقتی تقاضوں، مفروضوں اور دیگر نام نہاد روایات اور غیرت کے پیمانوں سے گرد آلود ہو کر رہ گئے ہیں، اور یوں لگتا ہے کہ مرد کی کی غیرت اور عزت کا بلند مینار تو عورت کے کندھوں پر ہی قائم ہے۔ اور اگر عورت ذات وہ حق بھی استعمال کرے جو اسے مذہب اور قانون دونوں دیتے ہیں تو مرد کی عزت کا مینار گر جاتا ہے اور اگلے ہی لمحے میں عورت کی سانس بند کر دی جاتی ہے۔ کائنات کے تمام رنگوں سے بنی اللّه پاک کی یہ تخلیق ہمارے معاشرے کے بنائے گئے خودساختہ روایات اور غیرت کے نام پر سولی چڑھا دی جاتی ہے۔