سیاست

وزیر اعلیٰ کا دورہ پشاور خوش آئند تاہم سوال کس سے؟

محمد فہیم

گزشتہ ہفتے، جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب پشاور میں بارش کے بعد وزیر اعلیٰ محمود خان اپنی گاڑی میں پشاور کی سیر کو نکل آئے، ان کے ساتھ معمول کی سکیورٹی بھی موجود نہیں تھی اور وہ صرف پشاور کا نظارہ کرتے رہے۔

وزیر اعلیٰ نے بغیر سکیورٹی پروٹوکول اپنی ذاتی گاڑی میں کوہاٹ روڈ، جی ٹی روڈ، رنگ روڈ، دلہ زاک روڈ، یونیورسٹی روڈ اور دیگر علاقوں کا دورہ کیا جہاں انہوں نے شدید بارش کے بعد نکاسی آب کے ناقص انتظام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ڈبلیو ایس ایس پی اور دیگر محکموں کو نکاسی آب اور صفائی ستھرائی یقینی بنانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ہدایت کی۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ متعلقہ افسران اور اہلکار اپنی ذمہ داریاں بروقت پوری کریں بصورت دیگر ان کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔

وزیراعلیٰ محمود خان نے پشاور کے مختلف مقامات پر ٹریفک اہلکاروں کی عدم موجودگی اور کوہاٹ روڈ کے مقام پر ٹریفک جام کا بھی سختی سے نوٹس لیتے ہوئے چیف ٹریفک پولیس سے رپورٹ طلب کی اور ہدایت کی کہ مصروف چوکوں اور دیگر مقامات پر مزید ٹریفک اہلکار تعینات کئے جائیں تاکہ ٹریفک کی روانی میں کوئی خلل نہ پڑے۔

پشاور میں ابتر ٹریفک نظام کی حقیقت خود حکومت بھی مان گئی

پشاور میں بی آر ٹی کی تعمیر کے بعد سے اب تک ٹریفک کے نظام میں بہتری نہیں آ رہی ہے اور پشاور کے شہریوں کا ٹریفک جام میں پھنس جانا معمول بن گیا ہے۔ پیر منگل اور جمعہ کے روز پشاور کی سڑکوں پر منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہونا اب عام سی بات بن گئی ہے جبکہ پشاور میں کسی ایک مقام پر بھی احتجاج پورے شہر کی سڑکوں کو بند کرنے کیلئے کافی ہے۔

ہفتہ قبل، اسی دن وزیر اعلیٰ محمود خان کے دورہ پشاور کے موقع پر کوہاٹ روڈ پر ٹریفک اہلکار ہی غائب تھے جس پر وزیر اعلیٰ نے شدید برہمی کا اظہار بھی کیا۔

وزیر اعلیٰ کا دورہ ہفتہ کے روز ہونے کی وجہ سے پشاور میں ٹریفک بہاﺅ قابو میں تھا تاہم پشاور کے ٹریفک وارڈن کی جانب سے ہر بار پشاور کے بہترین ٹریفک نظام کے دعویٰ کی قلعی کھول کر رکھ دی، ٹریفک اہلکاروں کا وقت سے قبل چھٹی کر کے غائب ہو جانا جبکہ سڑک کنارے غیرقانونی رکشہ اور ٹیکسی سٹینڈ پر بھی ٹریفک وارڈن کی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے پشاور میں ٹریفک کا نظام ابتر ہو گیا ہے۔

چند لمحوں کی بارش میں پشاور کا ڈوب جانا معمول ہے

پشاور میں کچھ لمحے کی بارش کے بعد نکاسی آب کی پیدا ہونے والی ابتر صورتحال ایک بار پھر سے زبان زد عام ہو گئی ہے، سینی ٹیشن کمپنی پشاور گزشتہ کئی ماہ سے مسلسل تنقید کی زد میں ہے جبکہ وزیر اعلیٰ محمود خان کے دورہ پشاور نے سینی ٹیشن کمپنی پر تنقید میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

گزشتہ ہفتے پشاور میں جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب اور ہفتہ کے روز ہونے والی بارش سے چند مقامات پر کچھ دیر کیلئے پانی کھڑا ہو گیا تھا اور وزیر اعلیٰ کے دورے کے موقع پر یہی پانی سینی ٹیشن کمپنی پر تنقید کا باعث بن گیا۔

وزیر اعلیٰ محمود خان نے کوہاٹ روڈ، جی ٹی روڈ، دلزاک روڈ، رنگ روڈ اور یونیورسٹی روڈ پر نکاسی کے ناقص انتظامات پر برہمی کا اظہار کیا۔ گزشتہ کئی روز سے تنقید کی زد میں رہنے والی سینی ٹیشن کمپنی پر تنقید میں بھی مزید اضافہ ہوا جس کا بجٹ 4 ارب روپے سالانہ سے زائد ہے، ان میں دو ارب 70 کروڑ کی جاری اخراجات کی گرانٹ بھی شامل ہے جبکہ ترقیاتی کاموں کیلئے صوبائی حکومت سے ملنے والی رقم اس کے علاوہ ہے۔ اور کمپنی کے پانی کی بلوں کی مد میں وصولیاں بھی کی جاتی ہیں۔

سینی ٹیشن کمپنی کیخلاف ملازمین اور پشاور کی اپوزیشن جماعتوں نے پہلے ہی محاذ کھولا ہوا تھا اب وزیر اعلیٰ کے دورے کے بعد ان کی تنقید میں مزید تیزی آ گئی ہے۔

دوسری جانب پشاور میں نکاسی کا نظام سینی ٹیشن کمپنی کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں کے سپرد بھی ہے؛ خیبر روڈ پر نکاسی کی ذمہ داری کنٹونمنٹ بورڈ، حیات آباد میں پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی، رنگ روڈ کے مختلف مقامات پر ٹی ایم اے اور چمکنی، پشتخرہ اور بڈھ بیر سمیت دیہی علاقوں میں یہ ذمہ داری ویلج و نیبرہڈ کونسلوں اور ٹی ایم ایز کی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button