دہشت گردی کے خلاف بیداری کے عوامی شعلے
شمائلہ آفریدی
شمائلہ اٹھ جاؤ، کیسے آرام کی نیند سو رہی ہو، تمہیں طیاروں کی آوازیں سنائی نہیں دے رہیں؟ لگتا ہے پھر سے حالات خراب ہو گئے ہیں، جنگ شروع ہو چکی ہے۔
یہ الفاظ میرے چھوٹے بھائی کے تھے جو مجھے جگانے کیلئے آوازیں دے رہا تھا۔
صبح کے چھ بجے تھے، جب میں اٹھی تو بھائی گھبرایا ہوا تھا، امی کی طرف دیکھا تو وہ بھی اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف تھیں لیکن دھیان طیاروں کی آواز پر تھا۔
علاقے میں رات سے فوجی آپریشن جاری تھا۔ فائرنگ بھی وقفے وقفے سے ہو رہی تھی اور ڈرون سے دو میزائل بھی داغے گئے تھے۔
دوسرے دن دوپہر تک آپریشن جاری رہا۔ مذکورہ علاقہ ہم سے بیس منٹ کی دوری پر مگر خوف ہمیں بے چین کئے ہوئے تھا۔
خوف کی گھٹن سے آزادی کے لئے گھر سے باہر نکلی تو گاؤں کی خواتین بچوں کو اسی بارے میں بات کرتے سنا۔
مگر ان کی باتوں سے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ان میں پہلے جیسا خوف موجود نہیں تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔
خوف کسے کہتے ہیں؟
جب ایسے حالات پیدا ہو جائیں جن میں ہماری جان و مال کو خطرہ ہو، نقصانات کا سامنا ہو اور ہم خطرہ اپنے بہت قریب محسوس کر رہے ہوں، اس کا اثر ہمارے دل و دماغ پر طاری ہو جائے، یہ سب کچھ مل کر انسانی نفسیات پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔
ایسے خوف میں انسان کیلئے زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ہم قبائلیوں نے یہ خوف شہ رگ سے بھی قریب محسوس کیا ہے۔ جب گھروں سے دربدر ہونا پڑا، گھر مسمار اور گاؤں ویران ہو گئے۔
ابھی تو خدا خدا کر کے تھوڑا سکھ کا سانس لیا تھا، اپنے علاقوں میں واپس آئے تھے مگر شدت پسندی کے عفریت نے ایک بار پھر اپنا خونی سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔
مجھے پشتون قبائل کے خلاف منظم گریٹ گیم کی شروعات ایک بار پھر دکھائی دے رہی ہیں۔
میں خوف زدہ ہوں
مجھے ناگہانی سے خوف آتا ہے۔
مجھے جنگ سے ڈر لگتا ہے۔
بندوق سے چلنے والی گولیوں سے اور اس کے نشانے کی زد پر آنے والوں کی موت سےخوف آتا ہے۔
مجھے اپنی سرزمین پر بے گناہوں کے خون کی ہولی کھیلنے سے خوف آتا ہے۔
میں نے اپنی آنکھوں سے ہیلی کاپٹروں سے داغے جانے والے میزائلوں کی یلغار دیکھی ہے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے بہت سے گدھ ہوں جو مردہ جسموں پر جھپٹنے کے لئے تیار ہوں۔
خوف زدہ اس وقت ہوئی تھی جب ہمیں اپنے گھر بار چھوڑنے کا نوٹس جاری کر دیا گیا تھا۔
خوفزدہ تب ہوئی تھی جب دھرتی پر جنگ کو لازمی قرار دیا گیا۔
مسلط کیا ہوا خوف
جنگ ہم پر ہمیشہ مسلط کی جاتی رہی ہے ۔ آخر نشانہ پشتون قبائل ہی کیوں بنتے ہیں؟
ہم قبائلی تو امن پسند قوم ہیں، ہمیں جنگوں سے نفرت ہے۔ نہیں معلوم کہ یہ کون لوگ ہیں، کہاں سے آتے ہیں، کیوں شر اور فساد پھیلانے آتے ہیں۔
شطرنج کے اس کھیل میں چاہے کوئی بھی ملوث ہو، وہ یہ یاد رکھے کہ بندوق کی گولیوں سے مسلط خوف دیرپا نہیں ہوتا۔ ہمارا نقصان ہو گا، شہادتیں ہوں گی، ہماری صفوں پر پشت سے حملے ہوں گے مگر یہ ڈر دیر تک قائم نہیں رہ پائے گا۔
قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف عوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ہم مزاحمت کریں گے، ہم اپنی سرزمین کو دہشت گردی کی آگ میں ایک بار پھر جھونکنے نہیں دیں گے۔
اب بیداری کے شعلوں کے آگے بندوقوں کی گھن گرج اور میزائلوں کی تباہی ٹک نہیں سکے گی۔
کیا ہم پشتون قبائل دوبارہ اس گریٹ گیم کا شکار ہوں گے یا مزاحمت کا علم بلند رکھیں گے؟
شمائلہ آفریدی نے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کیا ہے۔ سوشل ایکٹوسٹ اور سٹیزن جرنلسٹ ہونے کے ساتھ مختلف موضوعات پر بلاگز لکھتی ہیں۔