تعلیم پر سیلاب کے وار
سند س بہروز
سوشل میڈیا کا بھلا ہو کہ اس کی مرہون منت دوردراز سیلاب زدہ علاقوں سے متاثرین کی دگرگوں حالت کی حقیقی منظرکشی کرتیں کئی تصویریں اور ویڈیوز ہماری توجہ کا مرکز بن رہی ہیں۔
ایسی ہی ایک وڈیو کلپ نے میرے دل کے تاروں کو کچھ ایسے جھنجھوڑا کہ جیسے مجھ اکیلی سے ہی سوال کر رہا ہو۔ وڈیو میں کچھ لوگ سیلابی پانی کی حشر سامانی کا شکار ہو جانے والی اپنی بچی کھچی متاع جیسے، برتن، کپڑے، کرسیاں، الماریاں وغیرہ جمع کر رہے تھے۔
انہی میں ایک ننھی پری دوسروں سے بے نیاز پانی میں ڈوبی اپنی متاع یعنی درسی کتابیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکال رہی تھی۔ کیچڑ میں لت پت اس کی کتابوں میں لکھے الفاظ اس کے کپڑوں کی طرح ملگجے اور تصویریں اس کی اداس آنکھوں کی طرح دھندلا چکی تھیں۔
گیلی کتابیں سینے سے چمٹائے، اتھلے پانی میں خاموشی سے کھڑی وہ ننھی پری، شاید اپنے غیریقینی علمی مستقبل کا سوچ رہی تھی۔
اس کی اداسی دیکھی نہ گئی۔ سوچ میں پڑ گئی کہ سیلاب کتابوں، اسکول کے ساتھ ساتھ ان بچوں کے خواب بھی تو بہا لے گیا ہے۔ اسکول کی عمارتوں کو اتنا نقصان پہنچا ہے کہ وہ علمی سرگرمیوں کے لمبے عرصے تک متحمل نہیں ہو سکتے۔
خیبر پختونخوا کا تعلیمی نظام پانی میں بہہ گیا
ابھی تو امتحانات ہوئے تھے، ابھی تو نئے تعلیمی سال کا آغاز ہونے کو تھا، مگر قدرت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا، بھیج دیا بن بلایا مہمان سیلاب کی صورت میں جس نے ایک بار پھر اسکول جانے والے بچوں کو گھر بیٹھنے پر مجبور کر دیا، زندگی کے رواں دواں پہیے نے سیلاب کی بپھری ہوئی طاقت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ نظام زندگی مفلوج، کہیں اسکول گرے تو کہیں ان کا فرنیچر ناکارہ ہو گیا، کہیں کتابیں کیچڑ سے لت پت ہو گئیں تو کہیں تعلیمی ریکارڈ پانی میں بہہ گیا۔ اب تک کے تخمینے کے مطابق (اس میں اضافہ ہو سکتا ہے) ہمارے ملک میں 17566 اسکول سیلاب سے متاثر ہوئے وہیں 5492 اسکولز کو سیلاب زدگان کے لئے پناہ گاہ بنایا گیا۔
اکرام پڑھنا چاہتا ہے
خیبر پختونخوا میں تو قدرتی آفات کے ساتھ ساتھ انسانی آفات بھی تعلیم پر، خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر حملہ آور رہتی ہیں جیسے کہ ماضی قریب میں طالبان! ان کے خونی دور میں لڑکیوں کی تعلیم کو تسلسل سے نشانہ بنایا جاتا رہا۔ پھر کوویڈ کی وجہ سے ملک بھر میں تعلیم کا لمبے عرصے تک ضیاع ہوا۔ اب رہی سہی کسر یہ سیلاب نکال رہا ہے۔
اسکولوں میں داخلے کی مہم شروع ہو چکی تھی اور نئے تعلیمی سال کو لے کر طالب علم اور اساتذہ دونوں ہی بہت پرجوش تھے۔ مگر سیلاب نے جوش پر بھی پانی پھیر دیا۔
وزیر اعظم کے سیلابی دوروں کا مرکز جب بلوچتسان بنا تو وہاں آٹھویں جماعت کے ایک طالبعلم اکرام اللہ نے ان سے راشن یا خیمہ نہیں مانگا بلکہ تعلیم کے حصول کی خواہش کی۔
اکرام اللہ اپنے صوبے میں پسماندگی کی بڑی وجہ تعلیم کی کمی یا اس کے بالکل ناپید ہونے کو سمجھتا ہے۔
وہ اپنے علاقے میں اسکول کی خالی عمارتوں میں استادوں کو پڑھاتا دیکھنا چاہتا ہے، ان سے علم حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اور اس کے علاقے کے لوگ ترقی کی تیز رفتار دوڑ میں شامل ہوں اور آگے بڑھ سکیں۔
قدرتی اور انسانی آفتوں سے نبرد آزما تعلیمی نظام
قدرت کی کرنی دیکھیں کہ سیلاب نے زیادہ تر ان علاقوں کے اسکولوں کو متاثر کیا جہاں پہلے ہی روایتی طور پر تعلیم کی طرف رحجان کم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں تعلیم کی شرح بھی بہت کم ہے۔ ایسے میں کہ جب سیلاب کی صورت میں ایک قدرتی آفت منہ پھاڑے جیسے سب چیزوں کو نگل رہی ہے، اسکول بھی سیلاب کی خوراک بنے تو تعلیم کو جاری رکھنا اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔
ان علاقوں میں غربت بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے سے لوگ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کی بجائے محنت اور مشقت کروانا بہتر سمجھتے ہیں، سوچتے ہیں کہ چار پیسے ہی کما لائیں گے اور پیٹ کا ایندھن یعنی خوراک ملتی رہے گی۔
تعلیمی نقصان کا مداوا کیسے ہو؟
تعلیم کا بجٹ پہلے ہی کم ہے۔ سیلاب کی وجہ سے تباہی نے ملک کی معیشت کو جو نقصان پہنچایا اس کو مدنظر رکھتے ہوئے، کیا اس نقصان کا مداوا کم وقت میں ممکن ہے؟
ٹی وی پر پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس کو کہتے سنا کہ وہ تباہ حال اسکولوں کی مرمت کر کے انہیں کم از کم اس قابل بنانے پر توجہ دے رہے ہیں کہ وہاں سیلاب کا زور ٹوٹنے کے بعد تعلیم جاری رکھی جا سکے۔ رہی بات نئے سرے سے تعمیر کی تو اس معاملے کو انہوں نے بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی کے مصداق ٹال دیا۔
لیکن کیا تعلمی نقصان کا مداوا صرف اسکول کی عمارتوں کی مرمت سے ممکن ہے؟ آپ کے خیال میں کون سے اقدامات ہوں جن سے ہمارا کمزور تعلیمی نظام مزید نقصانات کی نذر نہ ہو؟
سندس بہروز ٹیچنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں، ریڈیو شوز کرتی ہیں اور صنفی موضوعات پر بلاگ اور شارٹ اسٹوریز بھی لکھتی ہیں۔
انسٹاگرام: @sundas_ behroz
(نوٹ: سیلاب کی صورتحال پر ٹی این این کی خصوصی بلاگ سیریز)