بلاگزلائف سٹائل

سیلاب سے جڑی وہ تباہی جو نظر نہیں آتی!

رعناز

سیلاب سے ہونے والی تباہی تو سب کو ہی نظر آ رہی ہے مگر میں آپ کو اس سے جڑی ایک نظر نہ آنے والی تباہی کے بارے میں بتانے جا رہی ہوں۔

آپ سوچ میں پڑ گئے یا پڑ گئیں؟

میں نے آپ کی سوچ پڑھ لی ہے کہ یہ کون سی تباہی ہو سکتی ہے جو نظر بھی نہ آئے اور تباہ کن بھی ہو۔ آپ کے تجسس کو اب مزید ہوا نہیں دیتی۔

دکھ کا جسم اور دماغ کے درمیان دردناک سفر

یہ بات صحیح ہے کہ سیلاب جیسی قدرتی آفت اپنے ساتھ جان، مال مویشی، فصلوں، معیشت، صحت و تعلیم سب کو ہی بہا کر لے جاتی ہے۔ بچ جانے والے پیچھے ہاتھ ملتے ہی رہ جاتے ہیں۔

سب کچھ کھو دینے کا احساس گزرتے وقت کے ساتھ دکھ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جب جسم اس دکھ کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے ہلکان ہو جائے تو اس احساس کا سفر دماغ کی طرف شروع ہو جاتا ہے۔ جب دماغ بھی اس بوجھ کو نہ سہہ سکے تو اس کا جسم کے ساتھ توازن متزلزل ہو جاتا ہے۔ اعصاب جواب دے جاتے ہیں۔

شاید ایسا ہی گل بی بی کے ساتھ ہوا۔

گل بی بی کون ہے اور اس کے ساتھ کیا ہوا؟

گل بی بی محب بانڈہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والی ایک عام سی بیس بائیس سالہ لڑکی ہے۔ اس کی شادی کو صرف ڈیڑھ سال کاعرصہ گزرا ہے۔ اس کی گود میں ہمکنے والا بچہ چند ماہ کا ہے۔

گل بی بی دکھنے میں تو معصومیت کا پیکر ہے مگر اس کی آنکھیں کچھ عجیب سی نظر آتی ہیں، جیسے زندگی کی رمق سے بالکل خالی۔ گود میں لئے بچے سے بھی کچھ  غافل سی ہی نظر آئی۔ اس کی ماں نے بتایا کہ میرا گمان درست تھا۔ گل بی بی کی آنکھوں کی چمک اور ہونٹوں پر کھلکھلاتی ہنسی سیلاب کی بے رحم موجیں اپنے ساتھ ہی بہا کر لے گئیں۔ وہ سلائی کڑھائی کے کام میں ماہر تھی۔ اپنی شادی پر جہیز کے سب کپڑے اس نے اپنے ہاتھ سے ہی سیئے تھے۔ شادی کے بعد وہ مٹی سے بنے ایک کمرے کے سسرال چلی گئی۔

یہ کمرہ کچا ہی سہی مگر اس کی کل کائنات بن گیا۔ مگر اس کی کل کائنات، اس کی جنت، اس کا محبت سے گندھا وہ کمرہ سیلاب کے ساتھ ہی دریا برد ہو گیا۔

اس نظر آنے والی تباہی نے گل بی بی کو ایک نظر نہ آنے والی تباہی کے غار میں دھکیل دیا۔

اسے گہرا ذہنی صدمہ پہنچا جس نے اس کے دماغی توازن پر اثر ڈالا۔

اب اس کو ایک چپ سی لگ گئی ہے۔ اسے ہوش ہی نہیں کہ اس کے چند ماہ کا بیٹا کہاں اور کس کے پاس ہے اور کون اس کو پال رہا ہے۔

خوف، صدمہ اور پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر

سیلاب، زلزلہ، طوفان وغیرہ ایسی قدرتی آفات کے ساتھ ٹراما یعنی دکھ کا اثر جڑا ہے۔

سیلاب نے گھر والوں کو بے گھر کر دیا۔ زمینداروں اور کاشتکاروں کی کھڑی فصلیں ڈوب گئیں۔ لوگوں نے اپنے پیاروں کو اپنے سامنے ہی پانی میں بہتے دیکھا اور انہیں بچا نہ سکے۔ دیہی علاقوں میں روزگار اور خوراک کی علامت مویشی یا تو بہہ گئے یا پھر ڈوب گئے۔

ایک تو منہ زور سیلابی ریلے میں بہہ جانے کا خوف، گھر والوں کی ناگہانی موت اور پھر بچ جانے کے بعد بے سرو سامانی، یہ سب انسانی نفسیات پر منفی اور ناقابل تلافی اثر ڈالتا ہے۔ یہ اثر گو کہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا مگر محسوس ہوتا ہے۔

سیلاب کی تباہی بھی بچ جانے والوں کے ذہنوں پر نقش ہو کر رہ گئی ہے۔

سیلاب زدہ لوگ نفسیاتی دباؤ جیسے پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر، انزائٹی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ متاثرہ لوگ مختلف فوبیا کا بھی شکار ہوتے ہیں جیسے پانی کا خوف یا ناگہانی کے ڈر میں مسلسل مبتلا رہنا۔ وہ ہر وقت اس سانحے کی کیفیت کو محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔

نفسیاتی بحران بھی انسانی بحران ہے

متاثرہ لوگوں تک خوراک، خیموں اور طبی سہولتوں کی فراہمی اولین ترجیح ہوتی ہے۔

مگر نفسیاتی دباؤ جیسے اہم مسئلے کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ نفسیاتی بیماریوں کے بارے میں عمومی معاشرتی رویے اور اس بیماری کا دکھائی نہ دینا ہے۔

مگر اس رویے کو تبدیل کرنا ہے۔ نفسیاتی مسائل کو حل کرنا ہے۔

طبی کیمپوں میں عام ڈاکٹروں کے ساتھ ایک ماہر نفسیات بھی ٹیم کا حصہ ہو جو ان لوگوں کی کاؤنسلنگ کرے، ان کا حوصلہ بڑھائے اور ان کا علاج کرے۔

متاثرہ  لوگوں نے اپنے گھروں اور سازوسامان کو سیلاب سے تباہ ہوتے ہوتے دیکھا ہوتا ہے، جس سے وہ گہرے صدمے میں چلے جاتے ہیں۔

ان کے ساتھ ایسی باتیں کرنی چاہئیں جو ان کو دوبارہ سے زندگی کی طرف مائل کر سکیں۔

میرا ماننا ہے کہ سیلاب زدگان کی مدد صرف خوراک و خیموں تک ہی محدود نہیں رکھنی چاہیے۔ ان کے دل، جذبات، احساسات اور دماغی طور پر پہنچنے والے نقصان کو بھی قبول کرنا ہو گا۔ انہیں نفسیاتی مدد بھی دینی ہو گی۔

کیا کہتے ہیں، نظر آنے والا اور نظر نہ آنے والا، دونوں طرح کے انسانی بحرانوں کو حل کرنا چاہیے نا؟

رعناز ٹیچر اور کپس کالج مردان کی ایگزام کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔

 (نوٹ: سیلاب کی صورتحال پر ٹی این این کی خصوصی بلاگ سیریز)

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button