امداد لینے وہ بہن بھائی بھی موجود تھے جن کے گھر کیا گاؤں سے بھی پانی نہیں گزرا!
سندس بہروز
کچھ دنوں پہلے رکشے میں گھر کی طرف رواں تھی کہ سیلاب زدہ علاقے سے گزر ہوا۔ تب اندازہ ہوا کہ پانی جیسی حیات بخش نعمت جب قہر میں آئے تو صرف زندگیاں ہی نہیں چھینتی بلکہ پورے کے پورے گاؤں برباد کر دیتی ہے۔ نعمت کو زحمت بنتے آج دوسری بار دیکھ رہی تھی، کہ اس سے پہلے 2010 کے سیلاب کی بھی چشم دید گواہ رہ چکی ہوں۔ پانی آیا تو بہت تیزی سے تھا مگر واپسی کا سفر کچھوے کی سی رفتار سے طے کر رہا تھا۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ جو پانی بہت طیش میں آیا تھا اب اپنے بلاوجہ کے غصے پر اتنی تباہی مچانے کے بعد شرمندہ سر جھکائے سست روی سے واپسی کے راستے پر گامزن ہے۔
سیلاب کی تباہی کاریاں
عجیب سی کیفیت طاری ہوئی جب ویران مکانوں کو دیکھا جن کو گھر بنانے میں مکینوں کی ایک زندگی گزری تھی۔ جس راستے پر گزرتے ہوئے بچوں کے قہقہوں کی آوازیں گونجتی تھیں، اب اسی راستے پر کوئی بچہ نہ تھا، البتہ مرد افسردہ چہروں اور جذبات سے عاری آنکھوں کے ساتھ سڑک کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے۔ ان مردوں کے کپڑے کیچڑ سے لدے ہوئے تھے۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ ان لوگوں نے کیچڑ سے انساری زیادتیوں کے بدلے لیے ہیں جو پانی سے لینے چاہیے تھے۔ مگر پانی ہاتھ کہاں آتا ہے۔
جس گاؤں سے ہم گزر رہے تھے یہ پورا گاؤں ویران تھا۔ سیلاب سے بچاؤ کی خاطر لوگوں نے محفوظ مقامات پر پناہ لی ہوئی تھی۔ پانی اب بھی موجود تھا۔ کسان اداس کھڑے اپنے پورے سال کی محنت پر پانی پھرتے دیکھ رہے تھے جبکہ کچھ لوگ اپنے گھر کی بنیادوں کو کھڑے پانی کی وجہ سے خراب ہوتے ہوئے دیکھ رھے تھے۔ جگہ جگہ پر جانوروں کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ مردہ لاشوں اور کھڑے پانی نے ماحول میں عجیب سی بدبو پھیلا رکھی تھی۔
سیلاب زدگان کے لئے امداد
جگہ جگہ ریلیف کیمپ بنائے گئے تھے جہاں تمام سیلاب زدگان کو منتقل کیا گیا تھا۔ ہماری دنیا میں بہت سے اچھے لوگ بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے یہ دنیا آج بھی قائم ہے۔ وہی لوگ ان سیلاب زدگان کے لئے امداد بھیج رہے تھے۔ امداد میں ضرورت کی مختلف اشیاء تھیں۔ اب سیلاب زدگان تو اپنے غم میں ڈوبے ہوئے تھے مگر فکر کی کوئی بات نہیں، ان کے حصے کی امداد لینے کے لئے ان کے وہ بھائی اور بہنیں موجود تھیں جن کے گھر کیا گاؤں سے بھی پانی نہیں گزرا۔ ایسے غم خوارِ بھائی اور بہنیں موجود ہوں تو فکر کس بات کی!
جتنی بھی گاڑیاں آتیں چاہے وہ راشن کی ہوں یا رضائیوں کی، پانی کی بوتلوں کی ہوں یا دوسری ضروری اشیاء کی، یہی غم خوارِ بھائی ان کو حاصل کرنے میں آگے آگے رہتے۔ اس امداد کو حاصل کرنے کے لئے ایسے دھکے لگتے کہ خدا کی پناہ! سڑک پر پوری کی پوری ٹریفک جام ہو جاتی۔ اور اگر غلطی سے ٹرک والا کہتا کہ ہمیں آگے والے ریلیف کیمپ میں جانا ہے تو بندوقیں نکل آتیں، کہ بھائی ہمارا ندیدہ پن دیکھے بغیر تم کہاں کو چل دیئے۔
بریانی تقسیم ہو رہی تھی جب ہمارا رکشہ وہاں سے گزر رہا تھا۔ ہمارے ساتھ بھی ایک بندہ بیٹھا، اس کے پاس بریانی کے دو پیکس تھے اور بہت فخر سے کہہ رہا تھا میں تو لوٹ کے آ گیا۔ یعنی کہ ہماری اخلاقی اقدار اتنی گر چکی ہیں کہ ہمیں احساس بھی نہیں کہ ہم نے کوئی غلط کام کیا بلکہ دوسروں کو فخر سے بتاتے ہیں۔ اس شخص نے رکشے والے کو بھی بریانی کی دعوت دی مگر وہ ایماندار آدمی تھا بولا اللہ کا شکر ہے کہ ہم پر سیلاب نہیں آیا میں اس کا حقدار نہیں ہوں۔
لوگوں کی بے حسی
لوگوں کی بے حسی کی انتہاء دیکھیے کہ اپنی عورتوں کو بھی سڑک کے کنارے بٹھا رکھا تھا کہ جب سیلاب زدگان کے لئے امداد آئے تو ہم ان عورتوں کا سہارا لے کر زیادہ مال لوٹ کر چلے جائیں۔ ان لوگوں میں بہت سے ایسے معزز لوگ بھی موجود تھے جو اچھا کھا پی رہے تھے اور اپنی کمائی میں ان کی اچھی گزر بسر ہو رہی تھی مگر پھر بھی امداد کی لالچ انہیں ریلیف کیمپس کے گیٹ تک لے آئی۔ ساتھ میں وہ سیلاب پر تبصرہ بھی کر رہے تھے کہ سیلاب نے بہت تباہی مچا دی ہے۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ جو تباہ ہو چکے ہیں ان کے ساتھ صرف زبانی ہمدردی کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ عمل سے بھی دکھائیے کہ آپ کو ان کی فکر ہے۔
مفت کی امداد لینے والوں میں کچھ مزدور بھی شامل تھے۔ جب لوگوں نے ان سے اپنے گھروں کی صفائی میں ہاتھ بٹانے کو کہا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ آج ہماری مزدوری کی چھٹی ہے۔ ہاں بھئی جب کسی کو مفت مال ملتا ہے تو وہ کیوں مزدوری کرے۔
ہم واقعی عجیب قوم ہیں۔ قول و فعل میں تضاد ہماری رگ رگ میں رچ بس چکا ہے۔ اخلاقی اقدار نام کی کوئی چیز ہم میں موجود نہیں۔ پہلے سوچا کہ شاید بھوک نے ان لوگوں سے ان کی اخلاقی اقدار بھلا دی ہیں مگر جب اچھے کھاتے پیتے گھرانے کے لوگوں کو ایسے حال میں دیکھا تو اندازہ ہوا کہ اخلاقی اقدار کا تعلق بھوک سے نہیں تربیت سے ہے ورنہ وہ غریب رکشے والا ایک پیکٹ بریانی سے انکار نہ کرتا اور نہ ہی محفوظ مقامات پر کھاتے پیتے گھرانے کے مقیم لوگ سیلاب زدگان کا حق کھاتے ہوتے۔
آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے ؟
سندس بہروز ٹیچنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں، ریڈیو شوز کرتی ہیں اور صنفی موضوعات پر بلاگ اور شارٹ اسٹوریز بھی لکھتی ہیں۔