موسمیاتی تبدیلیوں کے پنجے میں جکڑی دیہی عورت
شمائلہ آفریدی
”جلدی جلدی گھر کا کام نمٹا کر میں سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی پہاڑوں کا رخ کرتی ہوں تاکہ مویشیوں کی خوراک کیلئے گھاس کاٹ کر لا سکوں۔
جیسے جیسے سورج کی کرنیں تیز ہوتی جاتی ہیں، گرمی کی شدت بڑھتی جاتی ہے، اس وجہ سے میرا کام مزید مشکل ہو جاتا ہے۔”
یہ حالات و خیالات 40 سالہ فائزہ کے ہیں جس کا کام دیہات میں رہنے والی ہزاروں عورتوں کی طرح گھر کی دوسری ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ پہاڑ سے چارہ لانا بھی ہے۔
فائزہ کہتی ہیں کہ پہلے بارشیں وقت پر ہوا کرتی تھیں جبکہ کھیتوں میں گھاس بھی زیادہ ہوتی تھی، اب بارشیں بے موسم ہوتی ہیں اور زیادہ ہوتی ہیں جس سے فصل خراب ہوتی ہے، اب جانوروں کو تو چارے کی ضرورت ہوتی ہے جس کیلئے مجھے بہت دور جانا پڑتا ہے، گھاس کاٹنے سے میں بہت تھک جاتی ہوں، میرے ہاتھ زخمی ہو جاتے ہیں، میرے جسم میں ہر وقت درد رہتا ہے اور کبھی سانس لینے میں بھی دشواری محسوس ہوتی ہے مگر کام تو یہ سب نہیں دیکھتا۔
موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار خواتین
فائزہ کی طرح دوسری خواتین کی صبح بھی سورج نکلنے سے پہلے ہی ہو جاتی ہے۔ گھر کے تمام کام مثلاً کھانا پکانا، صفائی ستھرائی کرنا، کھیتوں میں کام کرنا، دوردراز دشوارگزار علاقوں سے چشموں اور کنوؤں سے پانی بھر کر لانا، مویشیوں کے لیے چارے کا انتظام کرنا، اور دشوار گزار پہاری علاقوں سے لکڑیاں لانا بھی انہی کی ذمے داریوں میں شامل ہوتا ہے۔
مگر موسمیاتی تبدیلیاں ان کی زندگیوں کو نفسیاتی، جسمانی اور جذباتی طور پر بری طرح متاثر کر رہی ہیں جس کی زیادہ شکار کھیتوں میں کام کرنے اور پہاڑوں سے لکڑیاں لانے اور دوردراز سے پانی لانے والی خواتین ہیں۔
روایات، دیہی خواتین اور موسمیاتی تبدیلی
خواتین پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثر کو گہرائی سے سمجھنے کے لئے ماحولیات پر کام کرنے والی صحافی عافیہ سلام سے رابطہ کیا گیا تو ان کا ماننا تھا کہ موسیماتی تبدیلیاں زندگی کے تمام گوشوں پر اثرات مرتب کر رہی ہیں، سماجی زنجیروں میں جکڑی خواتین کیلئے موسیماتی تبدیلیاں مشکلات میں مزید اضافہ کر رہی ہیں۔
عافیہ نے بتایا کہ دیہی علاقوں میں جب گرمی زیادہ ہوتی ہے تو مردوں کے بجائے خواتین ہی پانی لاتی ہیں، کھیتوں میں بھی کام کرتی ہیں، سخت سردی میں دھند اور دھویں سے سانس کی بیماریاں پھیلتی ہیں جن سے یہ خواتین سخت متاثر ہوتی ہیں، غبت کی وجہ سے خواتین غذائی قلت کا شکار بھی ہیں، دوسری طرف قدرتی آفات سے بھی انہیں مقابلہ کرنا پڑتا ہے، ملکی سطح پر خواتین کو موسیمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچانے کیلئے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں وہ انتہائی کم ہیں، اس حوالے سے بہت سے اقدامات ضروری ہیں مثلاً بدلتے موسموں کی مناسبت سے خواتین کی تربیت، وسائل کے استعمال کے حوالے سے ان کے علم میں اضافہ، پالیسی سازی اور فیصلوں میں ان کی شمولیت کو یقینی بنانا اور ماحولیاتی تبدیلی کے صنفی امتیازی خطرات کو ختم کرنے کے لئے پالیسی سازی اور عمل در آمد کے مابین فرق کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
خواتین کی صحت
گائنالوجسٹ ڈاکٹر اسماء کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دیہاتوں کی خواتین غذائی قلت کی وجہ سے اکثر جسمانی کمزوری کا شکار ہوتی ہیں، غذائی قلت غربت کے ساتھ خشک سالی کا بھی ایک نتیجہ ہے، زیادہ ترخواتین کے حمل گرنے کا تناسب بھی بڑھ رہا ہے جس کی اہم وجوہات گلوبل وارمنگ یعنی گرمی کی حدت میں اضافہ اور سردی میں مشقت والے کام ہیں، ایک تو غربت کی وجہ سے صحت افزاء خوراک نہیں ملتی تو دوسری طرف وہ وزن اٹھانے والے کام زیادہ کرتی ہیں، اسی طرح آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے بڑھتی غربت حاملہ خواتین کی صحت کو متاثر کرتی ہے۔۔
ڈاکٹر اسماء کے مطابق حمل کے دوران سر پر پانی رکھ کر لانا، کھیتوں میں کام کرنے سے لے کر پہاڑ سے لکڑیاں لانے تک ان تمام کاموں میں احتیاط کرنی چاہیے۔
کیا پاکستان میں ایمرجنسی کی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے کے لئے کوئی ایسا منصوبہ موجود ہے جس کے ذریعے خواتین کو قدرتی آفات کے دوران سہارا مل سکے؟
شمائلہ آفریدی نے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کیا ہے، سوشل ایکٹوسٹ اور سیٹیزن جرنلسٹ ہونے کے ساتھ مختلف موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہیں