بلاگزلائف سٹائل

”میرے ساتھ مسجد مت جاؤ، مجھے تنگ کرو گے”

رانی عندلیب

آج کے بچے کل جوان ہوں گے تو کیوں نا بچوں کو ابھی سے ہی مسجد جانے کا عادی بنایا جائے۔ دیکھا جائے تو بچے بچپن میں بہت شوق سے مسجد جاتے ہیں لیکن بعد میں جب بالغ ہوتے ہیں تو مسجد کا رخ کرنے سے کتراتے یا بہانے بناتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر مساجد میں آئمہ کرام بچوں کو مساجد میں نہیں چھوڑتے یا پھر بڑے بزرگ یہ کہتے ہیں کہ نہیں لے جا سکتے کیونکہ بچے مسجد میں شرارت کرتے ہیں، شور کرتے ہیں، گند ڈالتے ہیں، مسجد کے آداب کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

لیکن یہی بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو پھر باجماعت نماز کے لئے نہیں جاتے۔ ہم نے اکثر دیکھا ہے ہماری مساجد میں زیادہ تر تعداد بڑے بزرگوں کی ہوتی ہے جبکہ نوجوان نسل بہت کم تعداد میں ہوتی ہے۔

کہتے ہیں بچے کی اولین درسگاہ ماں کی گود ہے، ماں بچے کو اور چیزوں کے ساتھ ساتھ پانچ سال کی عمر میں نماز سکھانا بھی شروع کر دیتی ہے، لڑکیاں گھر پر نماز پڑھتی ہیں جبکہ لڑکے مسجد جاتے ہیں تاکہ آج کے بچے بڑے ہو کر مسقبل میں مساجد کو آباد رکھ سکیں۔

بچہ جب پانچ چھ سال کا ہو جاتا ہے تو گھر میں بڑوں کی دیکھا دیکھی وہ بھی نماز پڑھنے لگ جاتا ہے۔ اس میں نماز پڑھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ بھی باجماعت نماز پڑھنا شروع کر دیتا ہے لیکن اگر کم عمری میں ہی والد بچے کو یہ کہہ کر ڈانٹنے لگ جائے کہ میرے ساتھ مسجد مت جاؤ تو بچے کا دل ٹوٹ جاتا ہے اور پھر یہی بچہ بڑا ہو کر نماز نہیں پڑھتا۔ جبکہ والدین پھر گلہ شکوہ کرتے اور شور مچاتے ہیں کہ ہمارے بچے نماز کیوں نہیں پڑھتے۔

حیرت ہے کہ اول امام بچوں کو منع کرتا ہے کہ مسجد نہ آؤ، والد بھی بچوں سے کہتا ہے کہ میرے ساتھ مسجد مت جاؤ وہاں پر مجھے تنگ کرو گے، لیکن پھر وہی امام اور تبلیغی جماعت کے لوگ مل کر گھر گھر جاتے اور دروازے پر دستک دیتے ہیں اور انہی بچوں کو نماز کی تبلیغ کرتے ہیں جو اب جوان ہو چکے ہوتے ہیں اور جنہیں ساری عمر انہوں نے ہی مسجد سے دور رکھا ہوتا ہے۔

لیکن کچھ دن پہلے اس روایت کو ہماری مسجد کے امام نے ختم کر دیا۔ درویش آباد میں بی بی عائشہ مسجد کے امام نے چار سال کی عمر سے لے کر سات سال کے بچوں کیلئے مسجد میں ایک الگ جگہ مختص کی ہے اور تمام لوگوں کو ہدایت کی ہے کہ یہ الگ ہال بچوں کا ہے جہاں پر تمام بچے مل کر نماز پڑھیں گے تاکہ ان بچوں میں نماز کی عادت پیدا ہو اور مستقبل میں ہماری مساجد میں نوجوان نسل کی تعداد زیادہ ہو۔

امام صاحب کے مطابق بچے تو بچے ہوتے ہیں ان کی مثال پانی کی طرح ہے، جس سانچے میں ڈالیں گے وہی شکل اختیار کر لیتا ہے، بچے آج شرارت کریں گے کل بڑوں کو دیکھ کر وہی عادات اپنائیں گے جو مسجد میں سب کرتے ہیں خود بخود مسجد کے آداب اپنائیں گے۔ اللہ کرے تمام مساجد میں امام صاحبان اس روایت کو اپنائیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button