سیاست

بجٹ 22-2021 میں سوات کا حصہ کتنا؟

محمد فہیم

پاکستان میں جون کے مہینے میں بجٹ پیش کیا جاتا ہے اور اسی مہینے میں آئندہ مالی سال کے اخراجات اور آمدن کے تخمینے لگاتے ہوئے بجٹ پیش کیا جاتا ہے۔ بجٹ اندازوں پر مبنی ہوتا ہے اور جولائی سے جون تک ان اندازوں کے مطابق اس میں تبدیلی جاری رہتی ہے تاہم جیسے ہی جون کا مہینہ آتا ہے تو کوئی بھی گزشتہ برس کے جون میں پیش اندازوں اور تخمینوں پر سوال نہیں کرتا اور آئندہ مالی سال کے تخمینے اور اندازے بیان کرنا شروع کر دیتا ہے، چند صحافی ہی ہیں جو گزشتہ مالی سال کا حساب لیتے ہیں اور اس پر سوال اٹھاتے ہیں۔

اس وقت مالی سال 23-2022 شروع ہو چکا ہے اور اس کا ایک ماہ بھی مکمل ہو گیا ہے۔ اس برس جو مشکلات ہیں وہ ایک جانب تاہم اگر نظر دوڑائی جائے تو جو مالی سال گزر گیا یعنی 22-2021 اس میں گزشتہ برس جون میں جو اندازے اور تخمینے لگائے گئے وہ کس حد تک حاصل کئے گئے؟

بجٹ کے دو اہم حصے ہوتے ہیں؛ ایک کو جاری اخراجات کہا جاتا ہے جس میں تنخواہیں اور دیگر اخراجات شامل ہیں جبکہ دوسرا حصہ ترقیاتی پروگرام کا ہے اور یہی اصل حصہ ہوتا ہے جس سے عوام نے امیدیں وابستہ کی ہوتی ہیں۔ گزشتہ برس 316 ارب 55 کروڑ 30 لاکھ روپے کا ترقیاتی پروگرام پیش کیا گیا جو سال کے اختتام تک نظرثانی کے بعد بڑھ کر 336 ارب 55 کروڑ 9 لاکھ روپے کا ہو گیا۔

ایوان میں پیش کی جانے والی دستاویزات عمومی طور پر ترقیاتی پروگرام کی محکمہ جاتی تقسیم پر مبنی ہوتی ہیں تاہم اگر ان محکموں کے فنڈز کے استعمال کو اضلاع کی بنیاد پر جانچا جائے تو چشم کشا حقائق سے پردہ اٹھتا ہے۔

محکمہ ترقی و منصوبہ بندی خیبر پختونخوا سے حاصل کردہ دستاویزات کے مطابق نظرثانی شدہ ترقیاتی پروگرام کے 336 ارب 55 کروڑ 9 لاکھ روپے میں سے صوبائی حکومت نے 223 ارب 2 کروڑ 39  لاکھ 50 ہزار روپے ہی جاری کئے گئے ہیں جبکہ 214 ارب 43 کروڑ 24 لاکھ 50ہزار روپے ہی خرچ کئے جا سکے جو دعویٰ کئے گئے ترقیاتی پروگرام کا 70 فیصد بنتا ہے یعنی ہدف کے حصول میں صوبائی حکومت 30 فیصد پیچھے رہ گئی۔

اضلاع کی بنیاد پر اگر اس ترقیاتی پروگرام کو دیکھا جائے تو اضلاع کی بنیاد پر 120 ارب روپے سے زائد خرچ کئے گئے ہیں جن میں ضلع سوات سب سے زیادہ توجہ کا مرکز رہا ہے۔ ضلع سوات کیلئے 10 ارب 73 کروڑ 18 لاکھ 90 ہزار روپے رکھے گئے جو کسی بھی ضلع کیلئے سب سے زیادہ رقم ہے تاہم سال کے اختتام تک اس میں اضافہ ہوتا گیا اور نظرثانی شدہ تخمینہ 20 ارب 23 کروڑ 38 لاکھ 10 ہزار روپے تک پہنچ گیا جس میں سے 18 ارب 12 کروڑ 31 لاکھ 30 ہزار روپے خرچ کئے گئے۔

اس خرچ کردہ رقم کا اگر موازنہ کیا جائے تو ضلع سوات کے اکیلے ترقیاتی فنڈ کے مقابلے میں 15 اضلاع مجموعی طور پر فنڈز خرچ کر سکے ہیں؛ بونیر میں 2 ارب 99 کروڑ 12 لاکھ 50 ہزار، لوئر چترال میں 2 ارب 36 کروڑ 18 لاکھ 80 ہزار، لکی مروت میں 2 ارب 24 کروڑ 3 لاکھ 40 ہزار، ملاکنڈ میں ایک ارب 84 کروڑ 98 لاکھ، کرک میں ایک ارب 74 کروڑ 46 لاکھ 20 ہزار، اپر دیر میں ایک ارب 61 کروڑ 73 لاکھ 10 ہزار، ٹانک میں ایک ارب 42 کروڑ 59 لاکھ 60 ہزار، ہنگو میں ایک ارب 33 کروڑ 18 لاکھ 70 ہزار، بٹگرام میں ایک ارب 30 کروڑ 83 لاکھ 90 ہزار، شانگلہ میں ایک ارب 17 کروڑ 87 لاکھ 70 ہزار، تورغر میں ایک ارب 6 کروڑ 59 لاکھ، اپر چترال میں 31 کروڑ 39 لاکھ 20 ہزار، لوئر کوہستان میں 23 کروڑ 20 لاکھ 90 ہزار، اپر کوہستان میں 14 کروڑ 6 لاکھ جبکہ کولائی پالس میں 7 کروڑ 16 لاکھ 10ہزار روپے خرچ ہوئے، مجموعی طور 15 اضلاع میں گزشہ برس 19 ارب 87 کروڑ 43 لاکھ 60 ہزار روپے خرچ کئے گئے ہیں۔

ان اضلاع کو دیکھا جائے تو 120 ارب روپے میں سے 69 ارب 22 کروڑ 38 لاکھ روپے مخصوص 11 اضلاع میں خرچ کئے گئے ہیں جن میں سوات سرفہرست 18 ارب 12 کروڑ 31 لاکھ 30 ہزار، مردان 9 ارب 94 کروڑ 83 لاکھ 80 ہزار، صوابی 6 ارب 56 کروڑ 70 لاکھ، ایبٹ آباد 5 ارب 86 کروڑ، بنوں 5 ارب 48 کروڑ 72 لاکھ، نوشہرہ 5 ارب 29 کروڑ، کوہاٹ 4 ارب 89 کروڑ 90 لاکھ، ڈی آئی خان 4 ارب 66 کروڑ، چارسدہ 4 ارب 28 کروڑ 96 لاکھ، ہری پور میں 4 ارب 9 کروڑ 86 لاکھ اور لوئر دیر میں 3 ارب 93 کروڑ 78 لاکھ روپے خرچ کئے گئے۔

اضلاع میں خرچ کئے جانے والے فنڈز کی تفصیلات تو موجود ہیں تاہم 94 ارب روپے تک جو فنڈ صوبائی سطح پر خرچ کیا گیا وہ بھی اضلاع میں ہی تقسیم کیا گیا اور اس فنڈ کی توجہ بھی انہی مخصوص اضلاع پر رہی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button