بلاگزلائف سٹائل

”کامیابی” کا سفر طے کرنے والی ایک ”ناکام لڑکی” کا قصہ

نازیہ سلارزئی

ہمارے معاشرے میں اچھی اور کامیاب لڑکی اسے سمجھا جاتا ہے جس کی اپنی کوئی شخصیت یا پہچان نہیں ہوتی، جو گھریلو کام کاج میں ماہر ہو، بحث کے بجائے گھر کے مردوں اور بزرگوں کے فیصلوں سے اتفاق کرے، اور شادی کے بعد صرف شوہر، سسرال اور بچوں کی بہترین دیکھ بھال کرے۔

ایک قصہ سناتی ہوں آپ کو نام نہاد سماجی کامیابی کا سفر طے کرنے والی ایک ”ناکام لڑکی” کا! یہ لڑکی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک بہت بڑے بینک میں نوکری کر رہی تھی۔ جبکہ اس کی تنخواہ بھی خاندان میں کئی مردوں سے زیادہ تھی۔

چند ماہ بعد اس کی منگنی ہو گئی۔ لڑکی نے اپنی نوکری کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ کرنے سے انکار کیا تو سسرال والوں نے اس وقت بات مان لی۔

مگر کرنا یہ ہوا کہ شادی ہوتے ہی کچھ عرصے بعد سسرال والوں نے لڑکی پر دباؤ ڈال کر اسے نوکری چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ جبکہ ایسا کوئی دباؤ اس کے شوہر پر نہیں تھا۔ وہ زیادہ کما بھی رہی تھی اور اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے معاشرے کا مفید حصہ بھی تھی۔ اس بے جا دباؤ، اپنے اچھے کرئیر کی قربانی اور صلاحیتوں کے سلب ہونے نے اسے ڈپریشن میں مبتلا کر دیا۔

اس لڑکی کے سسرال والوں نے جھوٹ اور منافقت کا سہارا لے کر ایک باصلاحیت اور ذہین لڑکی کو دراصل ذہنی مریض بنا دیا مگر ان کی اور معاشرے کی نظروں میں اس کی نام نہاد کامیابی یہی تھی کہ اس کی اپنی شخصیت کا نام و نشان مٹ جائے۔

لڑکیاں جب تعلیم حاصل کرتی ہیں تو ان کے سامنے ایک مقصد ہوتا ہے ایک جستجو ہوتی ہے کہ وہ اپنی شناخت خود بنائیں گی۔ جب وہ پیشہ ورانہ زندگی میں اپنا مقام بناتی ہیں تو والدین کا سر فخر سے اونچا کرتی ہیں، کیونکہ وہ اپنا نام بنا رہی ہوتی ہیں۔

ایسے بہت سے والدین ہیں جو اپنی اولاد کو اچھی تعلیم دلانے کے لیے بہت محنت کرتے ہیں تاکہ وہ خودمختار ہو سکیں، اس لیے وہ اکثر ایسے فیصلوں سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ معاشرے کی اسی منافقت کی وجہ سے ان لڑکیوں کے مستقبل تاریک ہو جاتے ہیں۔

جبکہ دوسری طرف زیادہ تعداد ان خاندانوں کی ہے جن کی عام طور پر یہی خواہش ہوتی ہے کہ لڑکی کی جلد سے جلد شادی ہو جائے اور اگر اسے نوکری کرنا ہی ہے تو شادی کے بعد کرے۔

دفاتر میں ایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو خواتین کو بات بات پر جتاتے ہیں کہ تمہاری جگہ تو باورچی خانہ ہے، وہیں جا کر بیٹھو، یہ کام تمہارے بس کا نہیں۔

پاکستان میڈیکل کونسل کے مطابق 70 فیصد سے زائد لڑکیاں ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پریکٹس نہیں کرتیں، یہ مسئلہ صرف میڈیکل کے شبعے تک ہی محدود نہیں بلکہ زیادہ تر لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوکری نہیں کرتیں یا پھر انھیں نوکری کرنے نہیں دیا جاتا۔

جب یہی لڑکی اپنے گھر، خاندان اور بچوں کو فوقیت دیتے ہوئے ملازمت ترک کرنے کا ارادہ کرتی ہے تو وہ الجھ جاتی ہے۔  اسے اس الجھن میں ڈالنے والے اپنے پرائے سب ہی ہوتے ہیں۔ نوکری کرنے کے لیے پرسکون اعصاب کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ ہمارا منافق معاشرہ اس سے چھین لیتا ہے۔

لوگوں کے طعنے اور سماجی اقدار

اکثر مرد اپنی بیویوں کو صرف اس لیے اجازت نہیں دیتے کہ لوگ کیا کہیں گے۔  وہ یہ سب نہیں سننا چاہتے کہ شرم کرو بیوی سے نوکری کروا رہے ہو؟ ارے ان کی بیوی کماتی ہے نا وہی گھر کا خرچہ اٹھا رہی ہے، عجیب بے حیا لوگ ہیں۔ اگر بیٹی غیرشادی شدہ ہے تو کہتے ہیں دیکھو بیٹی کی کمائی کھا رہے ہیں۔ بیٹی کماتی ہے نا، اسی لیے اس کی شادی نہیں کرا رہے۔

اس جدید دور میں کچھ خاندان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ لڑکیوں کو نوکری کرنی ہی نہیں چاہئے۔ برادری کے دباؤ اور ثقافتی معیار کی خلاف ورزی کے طعنوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اگر لڑکی ان کے خلاف قدم اٹھاتے ہوئے نوکری کو چھوڑنا نہیں چاہتی تو اس کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

”لوگ کیا سوچیں گے؟”

اگر لڑکیاں تعلیم کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا چاہیں تو معاشرہ ان کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے، ان کو یہ کہا جاتا ہے کہ پڑھائی کر لی وہ ہی کافی ہے کوئی نوکری نہیں کرانی لڑکیوں سے، بھلا لوگ کیا سوچیں گے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ اب یہ بھی لڑکیوں کو سوچنا ہو گا کہ کہ لوگ کیا سوچیں گے تو پھر لوگوں کے سوچنے کے لئے کیا رہ جائے گا؟ بس وہی کریں جو خود ٹھیک لگے۔

لڑکیاں گھر بیٹھیں تو بیکار، باہر کام کریں تو گھر اور بچے نظرانداز کر رہی ہیں جیسے طعنے سننے کو ملتے ہیں۔

عدم تحفظ

بہت سے خاندان اور لڑکیاں عدم تحفظ کے احساس کو نوکری کرنے میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زیادہ تر خواتین کو کام کی جگہ پر تحفظ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ خواتین نوکری کرنا ہی چھوڑ دیں۔ ہمیں چاہیے کہ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔

ہمارے معاشرے کے مردوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ زمانہ بہت آگے نکل چکا ہے۔ لڑکیوں نے ہر شعبے میں اپنی قابلیت کا سکہ جمایا ہے۔ اب اس دور میں انھیں گھر کی چار دیواری تک محدود رکھ کر ضائع نہیں کیا جا سکتا ہے۔

عورت قوم کی تعمیر میں مرد کے ساتھ ساتھ ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے۔ تخلیق کا عمل اس کی طاقت اور تربیت اس کا ہتھیار ہے جس کے زور پر وہ مرد کے ساتھ مستقبل کے معماروں کو پروان چڑھاتی ہے۔

میں سمجھتی ہوں کہ اگر لڑکیاں معاشی طور پر خودمختار ہوں تو وہ اپنی بھی اور ملک کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس معاشرے کی منافقت کو نظرانداز کرتے ہوئے ہم لڑکیوں کو آگے بڑھتے رہنا چاہئے۔ لڑکیوں کو اپنا مستقبل خود طے کرنا ہو گا، یہ طاقت ہم کسی اور کو نہیں دے سکتیں کہ وہ ہمارے بارے میں ہمارے فیصلے لے۔

 آخر ورکنگ وومن یا خودمختار لڑکیوں کے بارے میں یہ سوچ کیوں پائی جاتی ہے کہ وہ گھر نہیں بسا سکتیں؟ آپ کے پاس ہے اس بات کا جواب؟

 نازیہ سالارزئی اکنامکس گریجویٹ اور بلاگر ہیں۔

 ٹوئٹر: NaziaSalarzai@

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button