میم سے مہنگائی، میم سے می رقصم!
حمیرا علیم
می رقصم مطلب میں رقص کر رہا ہوں۔ سچ مانیے تو کبھی دور جہالت میں بچپن میں رقص کیا ہو گا وہ بھی بے ہنگم۔ ہوش آنے پہ اور قرآن حدیث کے مطالعے کے بعد ایسا کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا مجھ سے۔ لیکن اب جو مہنگائی نے سب کو تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے تو دو چار گھمن گھیریاں کبھی کبھار مجھے بھی لگ ہی جاتی ہیں۔ خصوصا~ جب چھوٹے بیٹے کا اے پی ایس میں ایڈمشن کروایا اور بطور سویلین 78 ہزار ایڈمشن فی پے کی۔ کتابیں خریدنے گئے تو ایک بیٹے کی چند کتب کا بل 8 ہزار ادا کیا۔ دوسرے کی کتب ابھی تک آئی ہی نہیں، یونیفارم خریدتے ہوئے بھی ایسے لگا جیسے ان کی شادی کی شیروانی کی ادائیگی کر رہے ہیں۔
جب وین والے نے خوشخبری سنائی "پٹرول مہنگا ہو گیا ہے اس لیے اس ماہ سے کرایہ بھی بڑھے گا۔” اللہ جانے بڑھے گا یا حد سے گزر جائے گا۔ کیونکہ پچھلی وین والے کو صرف اسی وجہ سے چھوڑا تھا کہ ایک بچے کے 6000 مانگ رہا تھا اس پہ مستزاد یہ کہ اگر کسی ہفتے کو پیپر آ جائے تو موصوف صاف انکار کر دیتے ہیں کہ ہفتے اتوار کی ڈیوٹی ان کی نہیں۔ یعنی صرف 22 دن کے 6 ہزار انہیں ادا کریں اور ہفتے کو خود لے جائیں۔ ان کے خیال میں مہینہ 22 دن کا ہی ہوتا ہے۔
جب گروسری کے لیے مارکیٹ گئی اور آئل کے پانچ لیٹر کے ٹن کی قیمت 2650 ادا کی، آٹے کا بیس کلو والے تھیلا 1800، سرف کا دو کلو کا پیکٹ 680، چکن سپریڈ 250 گرام پاوچ 450 روپے، چنے کا ایک کلو کا پیکٹ 450 کا خریدا۔
یہ سب پچھلے ماہ کے ریٹس ہیں یقین واثق ہے کہ اب تک ان ریٹس میں چند سو کا اضافہ ہو چکا ہو گا۔ بسکٹس اور کیک کے 6 والے پیکس بچوں کے لنچ کے لیے تو نہ صرف قیمت 180 سے 260 ہو چکی تھی بلکہ ان کاسائز سکڑ کے اتنا چھوٹا ہو چکا تھا جیسے کینڈیز۔
پھر عیدالاضحٰی آ گئی
پھر عید الاضحٰی آ گئی، بچوں نے قربانی کی فرمائش کی۔ ویسے تو الحمد للہ ہر سال قربانی کرتے ہیں مگر اس سال جیب بالکل خالی ہو چکی تھی پھر بھی سوچا ریٹ پتہ کروا لیتے ہیں جیب پہ گراں نہ گزرے تو یہ سنت بھی پوری کر ہی لیں گے۔ مگر جب مالی، کیونکہ وہی ہمارے لیے ہر سال چھان پھٹک کے بہترین اور سستا جانور خرید کے لاتا ہے، سے درخواست کی کہ بھائی ذرا بکرے کا ریٹ تو معلوم کیجئے تو ایک اور 440 وولٹ کا جھٹکا لگا کیونکہ عید سے پانچ دن پہلے درمیانے بکرے کی قیمت 55000 تھی۔ سن کر سوچا اس بار اپنی ہی قربانی دے دوں۔ مگر یہ جائز نہیں ورنہ حکومت تو ہم عوام کو اپنی پہلوٹھی کی اولاد سمجھ کے آئی ایم ایف کے دربار میں ہماری بلی چڑھانے کے لیے ہر دم کوشاں ہے۔
اگلا جھٹکا مجھے یوں نچا گیا جیسے کسی کارٹون کیریکٹر کے سر پہ کوئی بھاری چیز گرتی ہے تو پہلے تو وہ گول گول گھومتا ہے پھر اس کی آنکھوں کے آگے تارے ناچتے ہیں اور آخر میں سر کے وسط میں ایک بڑا سا گومڑ نمودار ہو جاتا ہے۔بس یہی کیفیت اس وقت میری ہوئی جب پٹرول پمپ پہ رک کر میاں نے پٹرول ڈالنے والے کو مخاطب کر کے درخواست کی: "بھائی ذرا ٹینک فل کر دیں، گیج خراب ہے تو ذرا دھیان رکھیے گا۔” بھائی صاحب نے سر ہلایا اور چند منٹ بعد اطلاع دی، "19 لٹر ہے سر! 4712 روپے۔” تب سمجھ آئی کہ لوگ کیوں گاڑیاں کھڑی کر کے ان میں پودے اگا رہے ہیں۔ اور سائیکلز پہ آمدورفت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ویسے تو سائیکل بھی اب موٹر سائیکل کی قیمت میں مل رہی ہے۔ ایک دوست کے بچوں کے لیے سائیکل خریدنے گئے۔چونکہ کوئٹہ کی نیٹو مارکیٹ میں دنیا کی ہر چیز میسر ہے اور لوگ ان سیکنڈ ہینڈ چیزوں کو خریدنا پسند کرتے ہیں کیونکہ یہ برانڈڈ اور اچھی حالت میں ہوتی ہیں، اگرچہ یہاں بھی ہمارے پاکستانی بھائی اپنا ہاتھ دکھا جاتے ہیں اور پرزے نکال کے پاکستانی پرزے ڈال دیتے ہیں، تو کوئٹہ میں پوسٹنگ پہ آنے والی ان دوست کا اصرار تھا کہ بارڈر والی سائیکل ہی لینی ہے۔ بہت سمجھایا کہ چائنیز ہی لے لو نئی بھی ہو گی اور سستی بھی۔ مگر نہیں مانیں تو ڈھونڈتے ڈھونڈتے سائیکلز والی مارکیٹ لے گئی۔
ساری دکانوں سے ریٹ پوچھا۔ چائنیز کا 5000 جبکہ بارڈر والی کا 10 سے 25 ہزار تھا۔ جب سوال کیا کہ اتنا فرق کیوں ہے؟ تو جواب آیا: "کیونکہ یہ باہر کی چیز ہے ۔” ” پر ہے تو سیکنڈ ہینڈ نا۔” "چیز اچھی ہے باجی! آپ خود دیکھ لیں۔” اس اچھی چیز میں ٹائرز تبدیل کیے گئے تھے۔ رنگ کیا گیا تھا اور نجانے کتنے پرزے تبدیل کئے گئے تھے۔ جو سائیکل ہمیں پسند آئی اس کی قیمت 20 ہزار بتائی گئی۔ "اتنی مہنگی وہ بھی پانچ سال کے بچے کی سائیکل؟” "باجی ہمارے پاس تو دو لاکھ کی بھی ہے۔” جس طرف ان صاحب نے اشارہ فرمایا وہاں نہایت ہی عام سی سائیکل دیوار پہ لٹک رہی تھی۔ شاید دیوار پہ لٹکنے کی وجہ سے اس کے دام بھی اونچے ہو گئے تھے۔ بحث مباحثے کے بعد 15 ہزار والی سائیکل 13 ہزار میں لے کے گھر لوٹے۔ اور دل میں سوچا: "اب تو سائیکل بھی غریب کی پہنچ سے باہر ہے۔ اللہ کا شکر ہے پیدل چلنے پہ ٹیکس نہیں۔”
رقص کے اور بھی بہت سے مواقع میسر آتے رہتے ہیں اور اتنے بکثرت آتے ہیں کہ اب تو لگتا ہے کسی بھی وقت ڈھانچہ بکھر جائے گا اور ہڈی پسلی ایک ہو جائے گی۔ اللہ تعالٰی ہی ہمیں صحیح سلامت رکھ سکتا ہے ورنہ لگتا یہی ہے کہ ہم بھی ٹام کیٹ کی طرح کسی دن مہنگائی کے روڈ رولر کے نیچے آ کر غبارے کی طرح پھس ہو جائیں گے۔