کیا واقعی 2025 تک پاکستان پانی کی قلت کا شکار ہو جائے گا؟
حمیرا علیم
پاکستان پانچ دریاؤں کی سرزمین ہے اس کے باوجود یہاں پانی کی کمی کا مسئلہ ہے۔ ارسا (انڈس ریور سسٹم اتھارٹی) کے مطابق ملک میں پانی بحران میں شدت سے پانی کی کمی کا 22 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں بھی 56 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ شمالی علاقوں میں درجہ حرارت انتہائی کم ہے۔ تربیلا ڈیم گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے خالی ہے جبکہ منگلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ڈیموں میں پانی کا ذخیرہ ایک لاکھ ایکڑ فٹ ہے جبکہ گزشتہ سال ڈیموں میں پانی کا ذخیرہ 35 لاکھ ایکڑ فٹ تھا۔ دریاؤں میں پانی کا مجموعی بہاؤ 1 لاکھ 25 ہزار کیوسک ہے۔ گزشتہ سال ان دریاؤں میں پانی کا مجموعی بہاؤ 2 لاکھ 84 ہزار کیوسک تھا۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق پاکستان میں پانی کی دستیاب مقدار ڈھائی سو ارب کیوبک میٹرز ہے جس میں سے نوے فیصد زراعت، چار فیصد صنعت اور باقی چھ فیصد گھریلو استعمال کے لیے ہے۔ یعنی ڈھائی سو میں سے صرف 15 ارب کیوبک میٹر پانی گھریلو استعمال کے لیے دستیاب ہے۔ اگر ہم صرف گھریلو استعمال کے پانی کی بات کریں تو 22 کروڑ عوام میں سے 70 فیصد افراد کو صاف پینے کے پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق دنیا بھر کے ممالک جن کو پانی کی قلت کا سامنا ہے، اس فہرست میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ اس کے ساتھ ہی یو این ڈی پی اور پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کے مطابق پاکستان 2025 تک پانی کی قلت کا شکار ہو جائے گا۔ محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر صورت حال ایسی ہی رہی اور اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 2040 تک پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ پانی کی قلت سے متاثر ملک ہو جائے گا۔
یہ اعداد و شمار اور تحقیق پہلی بار نہیں کی گئی بلکہ بارہا اس بات کو اجاگر کیا جا چکا ہے۔ 2016 میں پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان 1990 میں واٹر سٹریس لائن تک پہنچ گیا تھا اور 2005 میں پانی کی قلت کی لائن عبور کر لی تھی۔
سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا چوتھا نمبر ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی 1017 کیوبک میٹر ہے جبکہ 2009 میں یہ دستیابی 1500 کیوبک میٹر تھی۔ عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ دستیابی 500 کیوبک میٹر تک پہنچ گئی تو ملک 2025 تک مطلق پانی کی قلت کا سامنا کرے گا۔
پاکستان میں پانی کی قلت کی کئی وجوہات بتائی جا رہی ہیں۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کے مطابق آبادی میں تیزی سے اضافہ، پانی کو ذخیرہ کرنے کی کمی اور زیر زمین پانی کا بے دریغ استعمال ان میں شامل ہیں۔
پاکستان میں تین بڑے ڈیموں میں اوسط نو فیصد پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے جبکہ دنیا بھر میں یہ اوسط 40 فیصد ہے۔ کسی زمانے میں نہروں اور دریاؤں کے اندر جمع ہونے والی مٹی کو نکال کر کنارے موجود کھیتوں میں ڈال دیا جاتا تھا۔ اس عمل کو ‘بھل صفائی’ کہا جاتا تھا جس کی وجہ سے نہروں اور دریاؤں میں پانی جمع کرنے کی گنجائش میں بھی اضافہ ہو جاتا تھا اور کھیتوں کی زرخیزی بھی بڑھ جاتی تھی۔ لیکن آج کل یہ عمل ناپید ہو چکا ہے کیونکہ یہ محکمہ بھی دوسرے سرکاری محکموں کی طرح بددیانتی اور کام چوری کا شکار ہو چکا ہے۔
اگر اب بھی ہمیں ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں پانی کی قلت مستقبل قریب کا مسئلہ نہیں ہے تو ہمیں بطور قوم ایک بار پھر سوچنا پڑے گا۔ پانی کی قلت ایک ٹائم بم ہے اور خدا نخواستہ جس دن یہ پھٹا تو 22 کروڑ عوام کو پانی کی قلت کا سامنا ہو گا۔
وجہ یہ نہیں ہے کہ پاکستان کے پاس پانی نہیں ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ ہم پانی کے وسائل کو اہمیت نہیں دے رہے اور اس حوالے سے اقدامات نہیں اٹھا رہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانی بڑی مقدار میں موجود ہے اور دنیا میں صرف 35 ایسے ممالک ہیں جن کے پاس پاکستان سے زیادہ پانی کے وسائل ہیں۔ لیکن پانی کے وسائل کو منیج نہیں کیا جا رہا اور بڑھتی آبادی موجودہ وسائل پر مزید دباؤ ڈال رہی ہے۔
ایک طرف پانی کے وسائل کو ہم صحیح طور پر منیج نہیں کر رہے تو دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی ناقابل تغیر بارشوں، قحط اور سیلاب کی صورت میں ہمارے موجودہ نظام پر مزید دباؤ ڈال رہی ہے۔ پاکستان کا شمار ان 10 ممالک میں ہوتا ہے جو موسمی تبدیلی سے شدید متاثر ہیں۔ پورٹو ریکو، میانمار، ہیٹی، فلپائن کے بعد پاکستان کا نام ہے۔ ایکشن ایڈ اور دیگر تنظیموں کی جانب سے تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسمی تبدیلی کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھانے کے باوجود سمندری سطح میں اضافے، پانی کی قلت، زرعی پیداوار میں کمی اور خشک سالی کے باعث خدشہ ہے کہ 2030 تک پاکستان میں چھ لاکھ افراد بے گھر ہو جائیں گے اور نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے۔ تاہم اگر موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو متاثر ہونے والے افراد کی تعداد دگنی یعنی 12 لاکھ ہو سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے پینل برائے موسمیاتی تبدیلی نے حال ہی میں دنیا کو خبردار کیا ہے کہ موسمی حدت خطرناک حد تک قابو سے باہر ہونے کے قریب ہے اور اس کے ذمہ دار انسان خود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں شدید گرمی میں اضافہ ہی ہو گا کمی واقع نہیں ہو گی یعنی کہ شدید گرمی کی لہر، سیلاب اور دیگر شدید موسمی واقعات جو اس وقت مختلف ممالک میں واقع ہو رہے ہیں، ان میں مزید شدت آئے گی۔
پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر جیکب آباد میں برداشت سے زیادہ گرمی پڑی اور درجہ حرارت 52 ڈگری سیلسیئس سے بڑھ گیا۔ ماہرین نے تو یہ بھی کہا کہ اگر اتنی گرمی کچھ گھنٹے مزید برقرار رہی تو لوگوں کے اعضا جواب دے سکتے ہیں اور موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق جیکب آباد میں اتنی زیادہ گرمی ان کی توقعات سے کہیں پہلے ہو گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ کے ساتھ پاکستان کے علاقے موسمیاتی تبدیلی سے زیادہ متاثر ہوں گے اور مستقبل قریب میں درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہو گا۔
دنیا میں کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جہاں پانی کے قدرتی ذخائر یعنی دریا ندی نالے موجود نہیں ہیں مگر وہ اپنی پانی کی ضرورت کو بااحسن طریقے سے پورا کر رہے ہیں۔
بہت سے ممالک نے ایسے طریقے بھی متعارف کروائے ہیں جن سے پانی کے استعمال میں کمی لائی جا سکے جیسے کہ بارش کے پانی کا ذخیرہ۔ اگرچہ یہ پانی پینے کی بجائے دوسرے کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ 2009 کے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے مطابق بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کی تکنیک برازیل، چائنہ، نیوزی لینڈ اور تھائی لینڈ میں مقبول ہوتی جا رہی ہے۔ جرمنی یہ تکنیک 1980 سے استعمال کر رہا ہے۔
نارتھ اٹلانٹک آئی لینڈ آف برمودا میں، جہاں تازہ پانی کا کوئی دریا، ندی یا جھیل نہیں ہے، 400 سال پہلے یہ تکنیک متعارف کروائی گئی تھی اور وہاں گھروں کی چھتیں سیڑھیوں جیسی ہیں۔ یہ سیڑھیاں بارش کی تیزی کو کم کر گھروں میں موجود زیرزمین واٹرٹینکس میں پانی ذخیرہ کرنے میں مددگار ہیں۔ ہر گھر میں 8 گیلن ٹینک کی گنجائش لازمی ہے۔ یہ چھتیں لائم اسٹون سے بنی ہوئی ہیں جو کہ اینٹی بیکٹریل ہے۔ بھاری ہونے کی وجہ سے یہ چھتیں طوفان میں اڑتی نہیں۔ اور سفید رنگ سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعوں کو منعکس کرتا ہے جس کی وجہ سے پانی بھی صاف ہو جاتا ہے۔
اسٹیورٹ ہیورٹ، ماحولیاتی ماہر ، کہتے ہیں: "ہم ایک کپ پانی سے دانت برش کرتے ہیں۔ کم ڈٹرجنٹ استعمال کرتے ہیں تاکہ پانی بھی کم لگے اور استعمال شدہ پانی باغیچے میں استعمال کیا جا سکے۔”
آبادی میں اضافہ کی وجہ سے اب آئی لینڈ ڈی سیلینیشن (سمندری پانی صاف کرنے) پلانٹس پہ انحصار کرنے لگا ہے۔برمودا میں موجود 6 پلانٹس روزانہ 1350 کیوبک میٹر پانی تیار کر رہے ہیں۔ یہ پانی نہانے اور کپڑے دھونے کے کام آتا ہے۔استعمال شدہ پانی کو جمع کر کے اس پہ عمل کیا جاتا ہے اور اسے زراعت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ راجر کلو، اوورسیز ڈیویلپمینٹ انسٹیٹیوٹ میں ہیڈ آف دا واٹر پروگرام یو کے، اس پروگرام کو زبردست قرار دیتے ہیں: "یہ مفید، کم خرچ اور مقامی حالات اور ماحول کے مطابق بنایا گیا ہے۔”
انڈیا میں بھی ایسا ہی پلانٹ گجرات میں مندرا کے ساحل پہ کام کر رہا ہے۔ اگر برمودا جیسا چھوٹا جزیرہ صدیوں پہلے یہ کام کر سکتا ہے تو ہم پاکستان میں ایسا نظام کیوں نہیں بنا سکتے؟ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہم سمندری پانی کو قابل استعمال کیوں نہیں بنا سکتے؟ پانی سے بجلی کیوں نہیں بنا سکتے؟ اور کچھ نہیں تو اپنے دریاؤں اور ڈیموں سے مٹی نکال کر ان کو اس قابل کیوں نہیں بنا سکتے کہ ان میں پانی زیادہ سے زیادہ ذخیرہ ہو سکے۔ کیوں دریاؤں کے خشک حصوں پہ ہاؤسنگ سوسائٹیز کا قبضہ ہوتا جا رہا ہے اور دریاؤں کا پاٹ سکڑتا جا رہا ہے؟
اگر سیلاب سے ہونے والی تباہی کاریوں سے بچنا ہے تو نہ صرف حکومت اور متعلقہ اداروں کو کام کرنا ہو گا بلکہ عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ کچرہ نالیوں اور نالوں میں پھینکنے کی بجائے مناسب طریقے سے ٹھکانے لگائیں۔ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کی کوشش کریں۔ اور پانی کے کم استعمال کے لیے سنسر والے نلکے اور شاور استعمال کریں ورنہ نتائج سب کو بھگتنے ہوں گے۔