حنا گل
قیوم سپورٹس کمپلیکس پشاور کبھی نہیں گئی، پرسوں ایک دوست کے ہمراہ جانے کا اتفاق ہوا۔ اُدھر انٹرمدارس سپورٹس کمپیٹیشن (مدارس کے مابین کھیلوں کے مقابلے) کی افتتاحی تقریب تھی۔ میں سپورٹس سے منسلک مدارس کے بچوں کو دیکھ کر دنگ رہ گئی۔
میں سمجھی کہ سارے کھلاڑیوں کی داڑھیاں ہوں گی کیونکہ وہ سارے مدارس کے بچے تھے لیکن ان میں سے کسی کی بھی داڑھی نہیں تھی۔ چونکہ عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مدارس کے بچوں کی داڑھی ہوتی ہے اس لیے ان کو داڑھی کے بغیر دیکھ کر مجھے وہ سب مدارس کے بچے نہیں لگے۔
اور دوسری بات کا جو مشاہدہ میں نے کیا وہ یہ تھی کہ جب ہم ان بچوں کا انٹرویو کر رہے تھے تو وہ سارے اپنے موبائل فون نکال کر تصویر کھنچوانے کے لیے ہمارے اتنے قریب آئے کہ میرے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی، مجھے لگا یہ ہم ہی پر گر جائیں گے۔
یہ بات عجیب مجھے اس لیے لگی کہ عموماً ہم نے مدارس کے بچوں کو عورتوں کا احترام کرتے دیکھا ہے، ان میں تو یہ بات تھی ہی نہیں۔ مجھے لگا کہ یہ مدارس کے نہیں بلکہ کہیں کسی کالج کے لڑکے ہیں یا پھر کہیں اور سے آئے ایسے لوگ جنہوں نے کبھی کوئی خاتون نہیں دیکھی۔
مدارس کے بچوں کو ہم نے سوشل میڈیا پر دیکھا ہے لیکن ٹک ٹاک جیسی ایپ پر کم بلکہ نہ ہونے کے برابر دیکھا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ جب ہم ان سے انٹرویو لے رہے تھے تو بعض بچے ویڈیوز اور تصاویر بنا کر کہنے لگے کہ ٹک ٹاک کا کام ہو گیا۔
مجھے لگا کہ سارے بچے مدارس کے طلبہ نہیں کیونکہ نہ ان میں عورتوں کی عزت تھی اور نہ ہی ان میں مجھے کوئی تمیز دکھائی دی۔
جب وہ سارے بچے ہم پر جھپٹ پڑے تو مجھے یوں لگا کہ میں ان کے پیروں کے نیچے آ گئی اور تھوڑی دیر کے لیے میری سانس رک گئی کیونکہ وہ بچے ایک منٹ سے کم وقت میں سارے اکٹھے ہوئے اور منع کرنے کے باوجود ہماری تصاویر بنا رہے تھے۔ آخر میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور میں غصہ ہو گئی کہ کوئی تمیز ہے آپ لوگوں میں! وہ سارے بچے اتنے بے ادب تھے کہ میری بات سننے کو تیار ہی نہیں تھے۔
یہ تو تھی کھیلوں کی ایک افتتاحی تقریب، ختم ہوئی تو ہم ایک کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کا انٹرویو لے رہے تھے، ایک نے ویسٹ انڈیز کے مشہور کھلاڑی براؤ کا سٹائل کر کے ہم کو حیران کر دیا۔
اس مشاہدے کے بعد مجھے لگا کہ یہ سارے مدارس کے طلبہ نہیں، صرف دکھانے کے لئے مدارس کے طالب علم بتائے جا رہے تھے۔