حناگل
لانگ مارچ میں تو ہر کسی نے حصہ لیا؛ جوان، بوڑھے بزرگ، جوان و عمررسیدہ خواتین یہاں تک کہ بچوں نے بھی، ہر ایک کے اندر ایک جوش تھا کہ حقیقی آزادی حاصل کرنے جا رہے ہیں، امپورٹد حکومت کے خلاف اس لانگ مارچ کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ہے۔
”یہ حکومت ایک امپورٹد حکومت ہے”، یہ جملہ اتنی بار سنا کہ ذہن میں پختہ ہو گیا، ”موجودہ حکومت پاکستان کی دشمن ہے۔” اور ہم پٹھان لوگوں نے اس کو اپنے دل اور دماغ میں بٹھا دیا کہ پاکستان خطرے میں ہے اور خود کو جہاد کے لیے تیار کرو۔
کیا یہ پاکستان صرف پٹھانوں کا ہے؟
ہم اتنے بیوقوف اور اندھے ہیں کہ ہم ایک ایسے لیڈر کو چنتے ہیں جس کو ہماری زبان کا بھی پتہ نہیں، جس کو پشتو زبان کے ایک لفظ تک کی سمجھ نہیں آتی اور ہم اس پر اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار ہیں۔
ہم میں عقل نہیں یا ہم بہت جذباتی قوم ہیں؟
جب بھی کہیں جنگ ہو تو ہم لوگ سب سے پہلے لبیک کہنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس طرح میں نے بھی خود سے عہد کیا کہ مجھے میرا لیڈر جو کہے گا میں لبیک کہوں گی کیونکہ مجھے یہ جملہ ”امپورٹد حکومت” بلٹ کی طرح سیدھا جا کے میرے دماغ کو لگا اور میرے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہو گئی۔ اب میں اس گرمی میں لیڈر کے پیچھے نہیں بلکہ اس کے آگے آگے جاؤں گی۔ میرے اندھے پن کی صلاحیت اتنی تیز ہے کہ راستے میں جو بھی رکاوٹ آئے گی وہ میں نے ختم کر کے اپنے لیڈر کے لیے راستہ صاف کرنا ہے تاکہ وہ اپنی منزل پر آسانی سے پہنچ جائیں۔
کیا لیڈر اپنے ساتھیوں کے آگے چلتا ہے یا ان کے پیچھے؟
اس بات پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ ہم اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنا لیڈر نظر نہیں آیا اور آگے نکل گئے، اتنے تیز گئے کہ راستے میں کنٹینرز یا جو بھی رکاوٹ آتی گئی ہماسے ہٹاتے گئے۔
اس دوران ایک آندھے اور مفلوج دماغ ساتھی نے جان دے کر اک مخلص ورکر ہونے کا اپنا حق ادا کر دیا۔
پھر ہمارا قافلہ آگے بڑھا اور لیڈر کو پتہ بھی نہیں چلا کہ جس راستے سے اتنے آسانی سے وہ گزرے یہاں ان کے ایک کارکن، ایک ساتھی نے جان دی ہے۔
جب ہم آگے بڑھے تو آنسو گیس کی بارش شروع ہوئی اور اندھے اور مفلوج دماغ ساتھیوں نے اس میں ثابت قدم رہنے، سانس لینے کا عہد کیا اور ذرہ سی دیر میں گویا اس کے عادی ہو گئے۔ اور پیچھے لیڈر اپنے عالی شان کنٹینرز میں خراماں خراماں چلا آتا رہا۔
جب ہم جنگ کے مقام یا میدان جنگ کہہ لیں، وہاں پر پہنچے تو بے وقوف ہجوم کے لیڈر نے اپنے بہادری دکھائی اور تلوار اٹھا کر دشمن کے گلے کے بجائے زمین پر دے ماری اور کہا کہ اتنا تھک چکا ہوں کہ آدھی جنگ بعد میں لڑیں گے۔ اپنے مفلوج دماغ ساتھیوں سے بھی کہا کہ اب گھر چلے جاؤ باقی جنگ بعد میں لڑیں گے۔
پھر میں نے سوچا کیا ہم صرف تکلیفیں برداشت کرنے اور آنسو گیس میں رونے اور راستہ ناپنے کے لیے آئے تھے؟
اب چھ دن بعد، میں نے اک بار پھر بے وقوف اور اندھا بننا ہے، یا پھر کسی اچھے سے ڈاکٹر سے اپنا چیک اپ، اپنا علاج کروانا ہے اور بے وقوف اور اندھا نہیں بننا، بس اسی کشمکش میں ہوں!