اسلحہ مرد کا زیور ہوتا ہے بچوں کا نہیں!
انیلا نایاب
پشتونوں کے ہاں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اسلحہ تو مرد کا زیور ہوتا ہے۔ اور یہ صرف کہنے کی حد تک نہیں ہے بلکہ ہر گھر میں پستول اور بندوقیں بھی موجود ہوتی ہیں۔ تقریباً ہر گھر میں اسلحہ رکھنے کا کوئی نے کوئی شوقین ضرور ہوتا ہے۔ مرد تو مرد خواتین بھی اسلحہ کا استعمال کرنا بخوبی جانتی ہیں۔
دوسری جانب اسلحہ کی نمائش ڈراموں، فلموں میں بھی بہت کی جاتی ہے جس سے نوجوان نسل کیا چھوٹے بچے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ اسی لئے تو جب بچوں کو عیدی ملتی ہے تو وہ اُن پیسوں سے اپنے لئے نقلی پستول خریدتے ہیں پھر اس سے چور سپاہی کھیل کھیلتے ہیں۔
اس کے نقصانات کیا ہیں کوئی اس طرف توجہ نہیں دیتا، اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہر روز کہیں نا کہیں کوئی نا کوئی ناخوشگوار واقع پیش آ جاتا ہے۔
چند مہینے پہلے کی بات ہے، ہمارے پڑوس میں 2 چچا زاد بھائی چور سپاہی کھیلنے کے لئے کمرے میں گئے اور ایک بچے نے اپنے والد کا پستول اٹھا کر 12 سالہ کزن کو گولی مار دی۔ کمرے سے گولی چلنے کی آواز آئی تو گھر میں شور مچ گیا کہ کمرے میں بچے کھیل رہے تھے۔ آواز کے ساتھ ہی ماں بیہوش ہو گئی۔ اپنے بچے کو خون میں لت پت دیکھ کر باپ کے اوسان خطا ہو گئے۔ ماں باپ کے ساتھ ساتھ گھر کے سبھی افراد بے حال تھے اور وہ والدین بھی جن کے بچے نے گولی چلائی تھی۔
زخمی بچے کی ماں کے مطابق ان کو یقین نہیں تھا کہ ان کا بچہ ٹھیک ہو کر کبھی گھر واپس آئے گا کیونکہ پیٹ میں گولی لگی تھی اور کمر کی طرف سے نکلی تھی، ”ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ بچے کے جگر کو گولی لگی ہے جس سے آدھا جگر خراب ہو گیا ہے۔ مسلسل 4 مہینے کے علاج سے شکر الحمدللہ بیٹا گھر واپس صحیح سلامت گھر آیا ہے۔”
اسی طرح پشاور شہر کے سجاد نامی شخص کے گھر مہمان آتے ہیں۔ سجاد کے بچے مہمان بچوں کے ساتھ کھیلنے لگ جاتے ہیں۔ سجاد کا بیٹا کہتا ہے چلو میں پولیس ہوں تم چور، میں تم لوگوں کو پکڑوں گا۔ جا کر اپنے والد کی پستول اٹھا کر لاتا ہے اور کہتا ہے چلو بھاگو اور ایک دم سے گولی چلنے کی آواز آتی ہے اور مہمان بچوں میں سے ایک بچہ اپنے خون میں لت پت ہو جاتا ہے۔
سجاد بچے کو گود میں اٹھا کر ہسپتال کی طرف بھاگتا ہے لیکن افسوس ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی بچہ اپنی زندگی کی بازی ہار چکا ہوتا ہے۔ سجاد یہ سوچ کر پاگل ہو رہا ہوتا ہے کہ بچے کے ماں باپ کو کیا جواب دوں گا، آخر ان کے بچے کی غلطی کیا تھی۔
چند ماہ پہلے ایک ٹک ٹاکر اپنی ٹک ٹاک ویڈیو میں سر پر پستول رکھتا ہے اس خیال سے کہ پستول میں کوئی گولی نہیں اور خالی ہے لیکن جیسے ہی پستول پر انگلی رکھتا ہے گولی چل جاتی ہے اور وہ اسی وقت مر جاتا ہے۔
اگر اپنے گھر کی بات کروں تو ہمارے گھر میں بھی بچے ارتغرل ڈراما دیکھ کر اتنے متاثر ہوئے ہیں کہ اپنے لیے نقلی تلواریں خریدی ہیں جن کے ساتھ کھیل کر وہ خود کو ہیرو کہتے اور سمجھتے ہیں۔
یعنی جو کسر رہ گئی تھی وہ آج کل کے ڈراموں اور فلموں میں اسلحہ اور ماردھاڑ پیش کر کے پوری کر دی گئہ ہے۔ نوجوان نسل متاثر ہو رہی ہے تو ہونے دو۔
اسلحے کی روایت ختم کرنا اتنا آسان نہیں ہے لیکن ہم کم از کم احتیاط تو کر سکتے ہیں کیونکہ تھوڑی سی بے احتیاطی سے کسی کی قیمتی جان جا سکتی ہے۔